سنن ابنِ ماجہ - سنت کی پیروی کا بیان - حدیث نمبر 80
حدیث نمبر: 80
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏ وَيَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَطَاوُسًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏يُخْبِرُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ مُوسَى:‏‏‏‏ يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا، ‏‏‏‏‏‏خَيَّبْتَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّةِ بِذَنْبِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ آدَمُ:‏‏‏‏ يَا مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِكَلَامِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَخَطَّ لَكَ التَّوْرَاةَ بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏أَتَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قَدَّرَهُ اللَّهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً؟ فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى ثَلَاثًا.
تقدیر کے بیان میں۔
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: آدم و موسیٰ (علیہا السلام) میں مناظرہ ہوا، موسیٰ (علیہ السلام) نے آدم (علیہ السلام) سے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں، آپ نے ہمیں ناکام و نامراد بنادیا، اور اپنے گناہ کے سبب ہمیں جنت سے نکال دیا، تو آدم (علیہ السلام) نے ان سے کہا: اے موسیٰ! اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنی ہم کلامی کے لیے منتخب کیا، اور تمہارے لیے اپنے ہاتھ سے تورات لکھی، کیا تم مجھ کو ایک ایسے عمل پر ملامت کرتے ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا!، نبی اکرم ﷺ نے تین بار فرمایا: چناچہ آدم موسیٰ پر غالب آگئے، آدم موسیٰ پر غالب آگئے، آدم موسیٰ پر غالب آگئے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التفسیر سورة طہ ١ (٤٧٣٦)، القدر ١١ (٦٦١٤)، صحیح مسلم/القدر ٢ (٢٦٥٢)، (تحفة الأشراف: ١٣٥٢٩)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/السنة ١٧ (٤٧٠١)، سنن الترمذی/القدر ٢ (٢١٣٥)، موطا امام مالک/القدر ١ (١)، مسند احمد (٢/٢٤٨، ٢٦٨) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آگئے اور ان سے جیت گئے یعنی انہیں اس بات کا قائل کرلیا کہ بندہ اپنے افعال میں خود مختار نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جس کام کو اس کے لئے مقدر کردیا ہے اس کے نہ کرنے پر وہ قادر نہیں، لہذا جو کچھ انہوں نے کیا اس پر انہیں ملامت کرنا درست نہیں، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا کہ تم نے تورات میں پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے کتنے برس پہلے تورات لکھی؟ انہوں نے کہا: چالیس برس، پھر آدم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم نے اس میں پڑھا ہے: وعصى آدم ربه فغوى یعنی آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی نافرمانی کی، تو راہ بھول گئے، انہوں نے کہا: ہاں، آدم (علیہ السلام) نے فرمایا: پھر بھلا تم مجھے کیا ملامت کرتے ہو؟ باقی وہی مضمون ہے، اور نبی اکرم نے تین بار فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) جیت گئے، اور یہ تکرار تاکید کے لئے تھی تاکہ بخوبی یہ بات سمجھ لی جائے کہ آدم (علیہ السلام) مستقل فاعل نہ تھے کہ فعل و ترک کا اختیار کامل رکھتے ہوں، بلکہ جو تقدیر الٰہی تھی اس کا ان سے وقوع ہوا، اور اللہ کی مرضی و مشیت کا ہونا ضروری تھا، گویا کہ آدم (علیہ السلام) نے یہ کہا کہ پھر تم اس علم سابق سے جو بذریعہ تورات تمہیں حاصل ہوچکا ہے کیوں غافل ہوتے ہو، اور صرف میرے کسب (یعنی فعل اور کام) کو یاد کرتے ہو، جو صرف سبب تھا، اور اصل سے غفلت کرتے ہو جو تقدیر الٰہی تھی اور تم جیسے منتخب اور پسندیدہ اور اسرار و رموز الٰہی کے واقف کار سے یہ بات نہایت بعید ہے، اور ان دونوں نبیوں میں یہ گفتگو عالم تکلیف و اسباب میں نہیں ہوئی کہ یہاں وسائط و اکتساب سے قطع نظر اور وسائل اور مواصلات سے چشم پوشی جائز نہیں بلکہ عالم علوی میں ہوئی جو اہل تقوی کی ارواح کے اکٹھا ہونے کی جگہ ہے، اور مکلف اس وقت تک ملامت کا مستحق ہوگا جب وہ عہد تکلیف و مسئولیت میں ہو تو اس پر ملامت امر معروف میں داخل ہے، اور معاصی سے ممانعت کا سبب ہے، اور دوسروں کے لئے عبرت اور موعظت کا سبب ہے، اور جب آدمی تکلیف و مسئولیت کے مقام سے نکل گیا تو اب وہ ملامت کا مستحق نہ رہا بلکہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو چیز مقدر کردی تھی اس کا ظہور ہوا، اور یہ بھی واضح ہے کہ یہ گفتگو اس وقت ہوئی جب آدم (علیہ السلام) تائب ہوچکے تھے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی تھی، اور تائب ملامت کے لائق نہیں ہوتا، مقصد یہ ہے کہ اس واقعہ سے فساق و فجار اپنے فسق و فجور اور بد اعمالیوں پر استدلال نہیں کرسکتے۔
It was narrated that ‘Amr bin Dinâr heard Tawus say: “I heard Abu Hurairah (RA) narrating that the Prophet ﷺ said: ‘Adam and Musa debated, and Musa said to hint “O Adam, you are our father but have deprived us and caused us to be expelled from paradise because of your sin.” Adam said to him: “O Musa, Allah chose you to speak with and He wrote the Tawrâh for you with His own Hand. Are you blaming me for something which Allah decreed for me forty years before He created me?” Thus Adam won the argument with Musa, thus Adam won the argument with Musa, thus Adam won the argument with Musa.’” (Sahih)
Top