سنن ابنِ ماجہ - طب کا بیان - حدیث نمبر 3453
حدیث نمبر: 3453
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ،‏‏‏‏ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ،‏‏‏‏ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ،‏‏‏‏ وَجَابِرٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ،‏‏‏‏ وَمَاؤُهَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ،‏‏‏‏ وَالْعَجْوَةُ مِنَ الْجَنَّةِ،‏‏‏‏ وَهِيَ شِفَاءٌ مِنَ الْجِنَّةِ،‏‏‏‏
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقِّيَّانِ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ هِشَامٍ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ مِثْلَهُ.
کھنبی اور عجوہ کھجور کا بیان۔
ابو سعید خدری اور جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کھمبی منّ میں سے ہے، اور اس کے پانی میں آنکھوں کا علاج، اور عجوہ (کھجور) جنت کا میوہ ہے اور اس میں پاگل پن اور دیوانگی کا علاج ہے ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ٢٢٨١، ٢٢٨٢، ٤٠٧٤، ٤٠٧٥، ومصباح الزجاجة: ١٢٠١)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٣/٤٨) (صحیح) (شفاء من السم کے لفظ سے صحیح ہے، من الجنة کے لفظ سے منکر ہے، ملاحظہ ہو: سنن ابن ماجہ ب تحقیق مشہور حسن، نیز ملا حظہ ہو: آگے والی حدیث ٣٤٥٥ )
وضاحت: ١ ؎: كَمْأَةُ: جمع ہے، اس کی واحد كمئٌ ہے، ابن اثیر نے اس کے بارے میں کہا کہ یہ معروف چیز ہے، لیکن اردو زبان میں اس کا ترجمہ کھمبی، ککرمتا سے کیا جاتا ہے، صاحب فیروز اللغات لکھتے ہیں: یہ ایک قسم کی سفید نباتات جو اکثر برسات میں ازخود پیدا ہوجاتی ہے، اور اسے تل کر کھاتے ہیں، سانپ کی چھتری، جمع: کھمبیاں، کھمبیوں (١١٢١)، مصباح اللغات میں كمئٌ کا ترجمہ یہ ہے : سانپ کی چھتری اور اس کو شحم الأرض کہتے ہیں، جمع : أكمؤٌ و كَمْأَةُ (٧٥٠-٧٥١) لسان العرب میں كمء کی تعریف یوں ہے : یہ ایسی نبات ہے جو زمین کو پھاڑ کر ویسے ہی نکلتی ہے جیسے کہ فُطر یعنی زمین سے اگنے والی نبات اور مزید فرمایا : یہ بھی کہا گیا ہے کہ كمء مٹ میلی اور کالی سرخی مائل چیز اور سفید فَقْعَه ہے، اور اس کے بعد یہی حدیث ذکر فرمائی۔ اور فُطر نامی نبات کو مشروم بھی کہتے ہیں، ملاحظہ ہو: قاموس الغذاء والتداوی بالنبات لاحمدقدامہ : صفحہ ٤٨٩ حدیث میں وارد كمء سے مراد وہ پھل ہے جو زمین کے اندر آلو کی شکل میں اور اسی کی طرح پیدا ہوتا ہے، اور اس کو سعودی عرب میں فَقْعَه کہتے ہیں، جاڑے میں بارش کے بعد یہ پیدا ہوتا ہے، صحراء کے لوگ اس کی جائے پیدائش سے واقف ہوتے ہیں، اور اسے زمین سے نکال کرلے آتے ہیں، یہ بازار میں بھی بھاری قیمت سے فروخت ہوتا ہے، جس کی قیمت تین سو ریال فی کلو تک پہنچ جاتی ہے، یہ آلو کی شکل کا ہوتا ہے، اس کی لذت پکا کر کھانے میں بالکل گوشت کی طرح ہوتی ہے، اس لیے اس کو زمین کے اندر اگنے والا مَن کہا جائے تو بیجانہ ہوگا، حدیث میں اس کو مَن میں شمار کیا گیا ہے، اور اس کے عرق کو آنکھ کا علاج بتایا گیا ہے، اور اس کا ذکر عجوہ کھجور کے ساتھ آیا ہے، صحیح یہی ہے کہ کمئَہ سے مراد سعودی عرب میں مشہور فَقْعَه نامی پھل ہے، جو آلو کے ہم شکل اور اسی کی طرح زمین میں پیدا ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس کی تعریف یوں کی ہے : کمئہ ایسی نبات ہے جو تنا (ڈنٹھل) اور پتوں کے بغیر ہوتی ہے، اور یہ زمین میں بغیر بوئے پائی جاتی ہے، اور یہ عرب علاقوں میں بہت پائی جاتی ہے اور مصر و شام میں بھی پائی جاتی ہے، حافظ ابن حجرنے جو تفصیلی بتائی ہے اس کے مطابق بھی یہ وہی فَقْعَه ہے جس کی تشریح اوپر گزری۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباری حدیث نمبر: ٥٧٠٨) حکیم مظفر حسین اعوان نے کھمبی کی تعریف یوں کی ہے : اردو: کھمب، ہندی: کھم، سندھی: کھنبہی، انگریزی : مشروم : یہ بغیر تنا اور بغیر پتوں کے خود رو پودا ہے جو گرمی کے موسم میں بارش کے بعد پیدا ہوتا ہے، اس میں جوہر ارضی زیادہ اور جوہر مائی کم ہوتا ہے، لیکن جب یہ خشک ہوجاتی ہے تو اس کی مائیت زائل ہوجاتی ہے، اور صرف ارضیت کے باقی رہنے سے غلظت بڑھ جاتی ہے ... قابض و نفاخ ہے، بلغم اور سودا پیدا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ امراض سوداوی اور بلغمی میں مضر ہے ... کھمب کا بڑا وصف صرف یہ ہے کہ یہ بہت لذیذ ہوتی ہے اس لیے لوگ اسے پکا کر کھاتے ہیں (کتاب المفردات : صفحہ ٣٨٦) احمد قدامہ نے لفظ كَمْأَةُ کے تحت جو تفاصیل ذکر کی ہیں وہ سابقہ خود رو زیر زمین آلو کی مانند پھل کی ہے، مولف نے آنکھ کے علاج سے متعلق طبی فوائد کا بھی ذکر کیا ہے، اور جدید تحقیقات کی روشنی میں اس کے اندر پائی جانے والی چیزوں کی تفصیلی بتائی ہے، اور آخر میں لکھا ہے کہ زمین میں اگنے والی ساری خود رو نباتات میں قوت باہ کو زیادہ کرنے میں یہ سب سے فائق ہے، اس میں کاربن، اکسیجن اور ہیڈروجن کے ساتھ ساتھ نائٹروجین کی بھی ایک مقدار پائی جاتی ہے، اس لیے یہ اپنی ترکیب میں گوشت کی مانند ہے، اور پکانے کے بعد اس کا مزہ بکری کے گردے کی طرح ہوتا ہے۔ (قاموس الغذاء : ٦٠٢-٦٠٤)، نیز ملاحظہ ہو: المعجم الوسیط : مادہ الکمأ۔ ککرمتا جسے سانپ کی چھتری بھی کہتے ہیں اور کھمبی سے بھی یہ جانا جاتا ہے، جس کی تفصیل اوپر گزری یہ ایک دوسرا خود رو چھوٹا پودا ہے جو برصغیر کے مرطوب علاقوں میں گرمی کے موسم میں بارش کے بعد اگتا ہے، خاص کر ان علاقوں میں جہاں سرکنڈا ( جسے سینٹھا، نرسل، نرکل اور نئے بھی کہتے ہیں) ہوتا ہے، اور یہ زمین پر خود بخود اگتا ہے، اس کا تعلق حدیث میں وارد کھمبی سے نہیں ہے واللہ اعلم۔ ٢ ؎: عجوہ کھجور سے دیوانگی اور پاگل پن کے علاج کا لفظ حدیث میں صحیح نہیں ہے، صحیح حدیث میں زہر کا علاج آیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: حدیث نمبر ٣٤٥٥)۔
ابو سعید خدری ؓ سے اس سند سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ٤٣٠٨، ومصباح الزجاجة: ١٢٠٢) (صحیح )
It was narrated from Abu Saeed and [a b ir that the Messenger of Allah ﷺ said: "Truffles are a type of manna, and their water is a healing for ane (diseases). And the Ajwail are feYomParadise, and they are healing for possession, (Hasan) Another chain from Abu Saeed from the Prophet ﷺ with similar wording.
Top