سنن ابنِ ماجہ - طب کا بیان - حدیث نمبر 3492
حدیث نمبر: 3492
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ غُنْدَرٌ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنَاأَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ الْأَنْصَارِيُّ،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ سَمِعَتُ عَمِّي يَحْيَى،‏‏‏‏ وَمَا أَدْرَكْتُ رَجُلًا مِنَّا بِهِ شَبِيهًا يُحَدِّثُ النَّاسَ،‏‏‏‏ أَنَّ سَعْدَ بْنَ زُرَارَةَ وَهُوَ جَدُّ مُحَمَّدٍ مِنْ قِبَلِ أُمِّهِ،‏‏‏‏ أَنَّهُ أَخَذَهُ وَجَعٌ فِي حَلْقِهِ يُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ الذُّبْحَةُ،‏‏‏‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَأُبْلِغَنَّ أَوْ لَأُبْلِيَنَّ فِي أَبِي أُمَامَةَ عُذْرًا،‏‏‏‏ فَكَوَاهُ بِيَدِهِ فَمَاتَ،‏‏‏‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مِيتَةَ سَوْءٍ لِلْيَهُودِ،‏‏‏‏ يَقُولُونَ:‏‏‏‏ أَفَلَا دَفَعَ عَنْ صَاحِبِهِ،‏‏‏‏ وَمَا أَمْلِكُ لَهُ وَلَا لِنَفْسِي شَيْئًا.
داغ لینے کا جواز۔
محمد بن عبدالرحمٰن بن اسعد بن زرارہ انصاری سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے چچا یحییٰ بن اسعد بن زرارہ سے سنا، اور ان کا کہنا ہے کہ اپنوں میں ان جیسا متقی و پرہیزگار مجھے کوئی نہیں ملا لوگوں سے بیان کرتے تھے کہ سعد بن زرارہ ١ ؎ (جو محمد بن عبدالرحمٰن کے نانا تھے) کو ایک بار حلق کا درد ہوا، اس درد کو ذُبحہ کہا جاتا ہے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں ابوامامہ (یعنی! اسعد ؓ) کے علاج میں اخیر تک کوشش کرتا رہوں گا تاکہ کوئی عذر نہ رہے ، چناچہ آپ ﷺ نے انہیں اپنے ہاتھ سے داغ دیا، پھر ان کا انتقال ہوگیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یہود بری موت مریں، اب ان کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ محمد ( ﷺ ) نے اپنے ساتھی کو موت سے کیوں نہ بچا لیا، حالانکہ نہ میں اس کی جان کا مالک تھا، اور نہ اپنی جان کا ذرا بھی مالک ہوں ٢ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ١١٨٢١، ومصباح الزجاجة: ١٢١٧)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/العین ٥ (١٣) (حسن) دون قولہ: لأبلغن
وضاحت: ١ ؎: اسعد بن زرارہ یا سعد بن زرارہ اس کے لئے دیکھئے: تحفۃ الاشراف والاصابہ۔ ٢ ؎: اسعد بن زرارہ انصار کے سردار تھے، بڑے مومن کامل تھے، آپ نے جہاں تک ہوسکا ان کا علاج کیا، لیکن موت میں کسی کا زرو نہیں چلتا، رسول اکرم کو بھی یہ اختیار نہ تھا کہ کسی کی موت آئے اور وہ روک دیں، لیکن یہودیوں کو جو شروع سے بےایمان تھے، یہ کہنے کا موقع ملا کہ اگر یہ سچے رسول ہوتے تو اپنے ساتھی سے موت کو دور کردیتے، آپ نے ان کا رد کیا، اور فرمایا: رسول کو اس سے کیا علاقہ؟ مجھ کو خود اپنی جان پر اختیار نہیں ہے، تو بھلا دوسرے کی جان پر کیا ہوگا، اور افسوس ہے کہ یہودی اتنا نہ سمجھے کہ اگلے تمام انبیاء و رسل جب ان کی موت آئی فوت ہوگئے بلکہ ہارون (علیہ السلام) جو موسیٰ کے بھائی تھے، موسیٰ کی زندگی میں فوت ہوئے اور موسیٰ (علیہ السلام) ان کو نہ بچا سکے، بھلا امر الٰہی کو کوئی روک سکتا ہے، ولی ہوں یا نبی، اللہ تعالیٰ کے سامنے سب عاجز بندے اور غلام ہیں۔
Muhammad bin "Abdur-Rahman bin Sad bin Zurarah AIAnsari said: "I heard my paternal uncle Yahya - and ihave not seen a man among us like him - tell the people that Sad bin Zurarah, who was the grandfather of Muhammad through his mother, was suffering from pain in his throat, known as croup. The Prophet ﷺ said: I shall do my best for Abu Umamah. Such that I will be excused (i.e., free of blame if he is not healed). And he cau terized him with his own hand, but he died. The Prophet ﷺ said: May the Jews be doomed! They will say: "Why could he not avert death from his Companion?" But I have no power to do anything for him or for my own self:" (Hasan)
Top