سنن ابنِ ماجہ - طلاق کا بیان - حدیث نمبر 2036
حدیث نمبر: 2036
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُغِيرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ:‏‏‏‏ طَلَّقَنِي زَوْجِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا سُكْنَى لَكِ وَلَا نَفَقَةَ.
جس عورت کو طلاق دی جائے تو عدت تک شوہر پر رہائش ونفقہ دینا واجب ہے یا نہیں ؟
شعبی کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس ؓ کا بیان ہے کہ میرے شوہر نے مجھے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں تین طلاقیں دے دیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے لیے نہ سکنی (رہائش) ہے، نہ نفقہ (اخراجات) ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ٦ (١٤٨٠)، سنن الترمذی/الطلاق ٥ (١١٨٠)، سنن النسائی/الطلاق ٧ (٣٤٣٢)، (تحفة الأشراف: ١٨٠٢٥) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اہلحدیث نے اس متفق علیہ حدیث سے دلیل لی ہے، صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ تیرے لئے نفقہ نہیں ہے مگر جب تو حاملہ ہو، جمہور کہتے ہیں کہ عمر اور عائشہ ؓ نے اس حدیث کا انکار کیا، اور عمر ؓ نے کہا: ہم اپنے رب کی کتاب اور نبی کی سنت ایک عورت کے قول سے نہیں چھوڑ سکتے، معلوم نہیں اس نے یاد رکھا، یا بھول گئی، اور فاطمہ ؓ کو جب یہ بات پہنچی، تو انہوں نے کہا: تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ (سورة الطلاق: 1) یہاں تک فرمایا: لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا (سورة الطلاق: 1) تین طلاق کے بعد کون سا امر پیدا ہوگا (یعنی رجوع کی امید نہیں تو نفقہ اور سکنی بھی واجب نہ ہوگا) اہل حدیث یہ بھی کہتے ہیں کہ امام احمد اور نسائی نے فاطمہ بنت قیس ؓ سے روایت کی کہ نبی کریم نے اس سے فرمایا: نفقہ اور سکنی اس عورت کے لئے ہے جس سے اس کا شوہر رجوع کرسکتا ہو اور امام احمد کی ایک روایت میں ہے کہ جب رجوع نہ کرسکتا ہو تو نہ نفقہ ہے نہ سکنی، اس کی سند میں مجالد بن سعید ہیں ان کی متابعت بھی ہوئی ہے اور وہ ثقہ ہیں تو اس کا حدیث کو مرفوع روایت کرنا مقبول ہوگا، اور قرآن میں بہت سی آیتیں ہیں جو نفقہ اور سکنی کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں لیکن وہ سب مطلقہ رجعی سے متعلق ہیں جیسے: لا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ (سورة الطلاق: 1) اور أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ (سورة الطلاق: 6) اور وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ (سورة البقرة: 241) اور دلیل اس تخصیص کی فاطمہ بنت قیس کی حدیث ہے، اور یہ آیت: لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا (سورة الطلاق: 1) اور یہ آیت: وَإِن كُنَّ أُولاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (سورة الطلاق: 6) کیونکہ اس سے یہ نکلتا ہے کہ اگر حاملہ نہ ہوں تو ان کو خرچ دینا واجب نہیں، اور بیہقی میں جابر ؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ جس حاملہ عورت کا شوہر مرجائے اس کو نفقہ نہیں ہے، اس کے بارے میں ابن حجر نے کہا کہ محفوظ یہ ہے کہ یہ موقوف ہے، اور ابوحنیفہ نے کہا کہ وفات والی کے لئے سکنی نہیں ہے وہ جہاں چاہے عدت گزارے، اور مالک (رح) نے کہا: اس کے لئے سکنی ہے، اور شافعی کے اس باب میں دو قول ہیں۔
It was narrated that Shabi said: Fatimah bint Qais said: "My husband divorced me at the time of the Messenger of Allah ﷺ three times. The Messenger of Allah ﷺ said: You have no right to accommodation or to maintenance. (Sahih)
Top