سنن ابنِ ماجہ - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 4074
حدیث نمبر: 4074
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ،‏‏‏‏ عَنْ مُجَالِدٍ،‏‏‏‏ عَنْ الشَّعْبِيِّ،‏‏‏‏ عَنْفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ،‏‏‏‏ وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ،‏‏‏‏ وَكَانَ لَا يَصْعَدُ عَلَيْهِ،‏‏‏‏ قَبْلَ ذَلِكَ إِلَّا يَوْمَ الْجُمُعَةِ،‏‏‏‏ فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ،‏‏‏‏ فَمِنْ بَيْنِ قَائِمٍ وَجَالِسٍ،‏‏‏‏ فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ بِيَدِهِ أَنِ اقْعُدُوا:‏‏‏‏ فَإِنِّي وَاللَّهِ مَا قُمْتُ مَقَامِي هَذَا لِأَمْرٍ يَنْفَعُكُمْ،‏‏‏‏ لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ،‏‏‏‏ وَلَكِنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ،‏‏‏‏ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي خَبَرًا مَنَعَنِي الْقَيْلُولَةَ،‏‏‏‏ مِنَ الْفَرَحِ وَقُرَّةِ الْعَيْنِ،‏‏‏‏ فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَنْشُرَ عَلَيْكُمْ فَرَحَ نَبِيِّكُمْ،‏‏‏‏ أَلَا إِنَّ ابْنَ عَمٍّ لِتَمِيمٍ الدَّارِيِّ أَخْبَرَنِي أَنَّ الرِّيحَ أَلْجَأَتْهُمْ إِلَى جَزِيرَةٍ لَا يَعْرِفُونَهَا،‏‏‏‏ فَقَعَدُوا فِي قَوَارِبِ السَّفِينَةِ،‏‏‏‏ فَخَرَجُوا فِيهَا،‏‏‏‏ فَإِذَا هُمْ بِشَيْءٍ أَهْدَبَ أَسْوَدَ،‏‏‏‏ قَالُوا لَهُ:‏‏‏‏ مَا أَنْتَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنَا الْجَسَّاسَةُ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ أَخْبِرِينَا،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا أَنَا بِمُخْبِرَتِكُمْ شَيْئًا،‏‏‏‏ وَلَا سَائِلَتِكُمْ،‏‏‏‏ وَلَكِنْ هَذَا الدَّيْرُ قَدْ رَمَقْتُمُوهُ فَأْتُوهُ،‏‏‏‏ فَإِنَّ فِيهِ رَجُلًا بِالْأَشْوَاقِ إِلَى أَنْ تُخْبِرُوهُ وَيُخْبِرَكُمْ،‏‏‏‏ فَأَتَوْهُ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ،‏‏‏‏ فَإِذَا هُمْ بِشَيْخٍ مُوثَقٍ شَدِيدِ الْوَثَاقِ،‏‏‏‏ يُظْهِرُ الْحُزْنَ شَدِيدِ التَّشَكِّي،‏‏‏‏ فَقَالَ لَهُمْ:‏‏‏‏ مِنْ أَيْنَ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ مِنْ الشَّامِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَا فَعَلَتْ الْعَرَبُ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ نَحْنُ قَوْمٌ مِنْ الْعَرَبِ،‏‏‏‏ عَمَّ تَسْأَلُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَا فَعَلَ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي خَرَجَ فِيكُمْ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ خَيْرًا،‏‏‏‏ نَاوَى قَوْمًا،‏‏‏‏ فَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ،‏‏‏‏ فَأَمْرُهُمُ الْيَوْمَ جَمِيعٌ إِلَهُهُمْ وَاحِدٌ وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَا فَعَلَتْ عَيْنُ زُغَرَ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ خَيْرًا،‏‏‏‏ يَسْقُونَ مِنْهَا زُرُوعَهُمْ وَيَسْتَقُونَ مِنْهَا لِسَقْيِهِمْ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا فَعَلَ نَخْلٌ بَيْنَ عَمَّانَ وَبَيْسَانَ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ يُطْعِمُ ثَمَرَهُ كُلَّ عَامٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا فَعَلَتْ بُحَيْرَةُ الطَّبَرِيَّةِ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ تَدَفَّقُ جَنَبَاتُهَا مِنْ كَثْرَةِ الْمَاءِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَزَفَرَ ثَلَاثَ زَفَرَاتٍ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ لَوِ انْفَلَتُّ مِنْ وَثَاقِي هَذَا،‏‏‏‏ لَمْ أَدَعْ أَرْضًا إِلَّا وَطِئْتُهَا بِرِجْلَيَّ هَاتَيْنِ،‏‏‏‏ إِلَّا طَيْبَةَ،‏‏‏‏ لَيْسَ لِي عَلَيْهَا سَبِيلٌ،‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِلَى هَذَا يَنْتَهِي فَرَحِي،‏‏‏‏ هَذِهِ طَيْبَةُ،‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا فِيهَا طَرِيقٌ ضَيِّقٌ،‏‏‏‏ وَلَا وَاسِعٌ وَلَا سَهْلٌ وَلَا جَبَلٌ،‏‏‏‏ إِلَّا وَعَلَيْهِ مَلَكٌ شَاهِرٌ سَيْفَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.
فتنہ دجال حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا نزول اور خروج یاجوج ماجوج۔
فاطمہ بنت قیس ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن نماز پڑھائی، اور منبر پر تشریف لے گئے، اور اس سے پہلے جمعہ کے علاوہ آپ منبر پر تشریف نہ لے جاتے تھے، لوگوں کو اس سے پریشانی ہوئی، کچھ لوگ آپ کے سامنے کھڑے تھے کچھ بیٹھے تھے، آپ ﷺ نے ہاتھ سے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فرمایا: اللہ کی قسم! میں منبر پر اس لیے نہیں چڑھا ہوں کہ کوئی ایسی بات کہوں جو تمہیں کسی رغبت یا دہشت والے کام کا فائدہ دے، بلکہ بات یہ ہے کہ میرے پاس تمیم داری آئے، اور انہوں نے مجھے ایک خبر سنائی (جس سے مجھے اتنی مسرت ہوئی کہ خوشی کی وجہ سے میں قیلولہ نہ کرسکا، میں نے چاہا کہ تمہارے نبی کی خوشی کو تم پر بھی ظاہر کر دوں) ، سنو! تمیم داری کے ایک چچا زاد بھائی نے مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا کہ (ایک سمندری سفر میں) ہوا ان کو ایک جزیرے کی طرف لے گئی جس کو وہ پہچانتے نہ تھے، یہ لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیوں پر سوار ہو کر اس جزیرے میں گئے، انہیں وہاں ایک کالے رنگ کی چیز نظر آئی، جس کے جسم پر کثرت سے بال تھے، انہوں نے اس سے پوچھا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں جساسہ (دجال کی جاسوس) ہوں، ان لوگوں نے کہا: تو ہمیں کچھ بتا، اس نے کہا: (نہ میں تمہیں کچھ بتاؤں گی، نہ کچھ تم سے پوچھوں گی) ، لیکن تم اس دیر (راہبوں کے مسکن) میں جسے تم دیکھ رہے ہوجاؤ، وہاں ایک شخص ہے جو اس بات کا خواہشمند ہے کہ تم اسے خبر بتاؤ اور وہ تمہیں بتائے، کہا: ٹھیک ہے، یہ سن کر وہ لوگ اس کے پاس آئے، اس گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں ایک بوڑھا شخص زنجیروں میں سخت جکڑا ہوا (رنج و غم کا اظہار کر رہا ہے، اور اپنا دکھ درد سنانے کے لیے بےچین ہے) تو اس نے ان لوگوں سے پوچھا: تم کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: شام سے، اس نے پوچھا: عرب کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ہم عرب لوگ ہیں، تم کس کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟ اس نے پوچھا: اس شخص کا کیا حال ہے (یعنی محمد کا) جو تم لوگوں میں ظاہر ہوا؟ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، اس نے قوم سے دشمنی کی، پھر اللہ نے اسے ان پر غلبہ عطا کیا، تو آج ان میں اجتماعیت ہے، ان کا معبود ایک ہے، ان کا دین ایک ہے، پھر اس نے پوچھا: زغر (شام میں ایک گاؤں) کے چشمے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، لوگ اس سے اپنے کھیتوں کو پانی دیتے ہیں، اور پینے کے لیے بھی اس میں سے پانی لیتے ہیں، پھر اس نے پوچھا: (عمان اور بیسان (ملک شام کے دو شہر کے درمیان) کھجور کے درختوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ہر سال وہ اپنا پھل کھلا رہے ہیں، اس نے پوچھا: طبریہ کے نالے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: اس کے دونوں کناروں پر پانی خوب زور و شور سے بہ رہا ہے، یہ سن کر اس شخص نے تین آہیں بھریں) پھر کہا: اگر میں اس قید سے چھوٹا تو میں اپنے پاؤں سے چل کر زمین کے چپہ چپہ کا گشت لگاؤں گا، کوئی گوشہ مجھ سے باقی نہ رہے گا سوائے طیبہ (مدینہ) کے، وہاں میرے جانے کی کوئی سبیل نہ ہوگی، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یہ سن کر مجھے بےحد خوشی ہوئی، طیبہ یہی شہر (مدینہ) ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مدینہ کے ہر تنگ و کشادہ اور نیچے اونچے راستوں پر ننگی تلوار لیے ایک فرشتہ متعین ہے جو قیامت تک پہرہ دیتا رہے گا ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الملاحم ١٥ (٤٣٢٦، ٤٣٢٧)، سنن الترمذی/الفتن ٦٦ (٢٢٥٣)، (تحفة الأشراف: ١٨٠٢٤)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٦/٣٧٣، ٣٧٤، ٤١١، ٤١٢، ٤١٥، ٤١٦، ٤١٨) (صحیح) (سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہیں، لیکن متن حدیث صحیح ہے، صرف وہ جملے ضعیف ہیں، جو اس طرح گھیر دئے گئے ہیں، صحیح مسلم کتاب الفتن ٢٤؍ ٢٩٤٢ میں یہ حدیث ہلالین میں محصور جملوں کے علاوہ آئی ہے، جیسا کہ اوپر گزرا۔
وضاحت: ١ ؎: اور دجال کو وہاں آنے سے روکے گا، دوسری روایت میں ہے کہ دجال احد پہاڑ تک آئے گا، پھر ملائکہ اس کا رخ پھیر دیں گے، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ زنجیر میں جکڑے اس شخص نے کہا: مجھ سے امیوں (یعنی ان پڑھوں) کے نبی کا حال بیان کرو، ہم نے کہا: وہ مکہ سے نکل کر مدینہ گئے ہیں، اس نے کہا: کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے؟ ہم نے کہا: ہاں، لڑے، اس نے کہا: پھر نبی نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے اسے بتلایا کہ وہ اپنے گرد و پیش عربوں پر غالب آگئے ہیں اور انہوں نے اس رسول ( ) کی اطاعت اختیار کرلی ہے، اس نے پوچھا کیا یہ بات ہوچکی ہے؟ ہم نے کہا: ہاں، یہ بات ہوچکی، اس نے کہا: سن لو! یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ وہ اس کے رسول کے تابعدار ہوں، البتہ میں تم سے اپنا حال بیان کرتا ہوں کہ میں مسیح دجال ہوں، اور وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے خروج کی اجازت (اللہ کی طرف سے) دے دی جائے گی، البتہ اس میں یہ ہے کہ مکہ اور طیبہ (مدینہ) کو چھوڑ کر میں کوئی ایسی بستی نہیں چھوڑوں گا جہاں میں نہ جاؤں، وہ دونوں مجھ پر حرام ہیں، جب میں ان دونوں میں کہیں سے جانا چاہوں گا تو ایک فرشتہ ننگی تلوار لے کر مجھے اس سے روکے گا، اور وہاں ہر راستے پر چوکیدار فرشتے ہیں، یہ فرما کر آپ نے اپنی چھڑی منبر پر ماری، اور فرمایا: طیبہ یہی ہے، یعنی مدینہ اور میں نے تم سے دجال کا حال نہیں بیان کیا تھا کہ وہ مدینہ میں نہ آئے گا؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے بیان کیا تھا پھر آپ نے فرمایا: شام کے سمندر میں ہے، یا یمن کے سمندر میں، نہیں، بلکہ مشرق کی طرف اور ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن: باب: قصۃ الجساسۃ )
It was narrated that Fatimah bint Qais said: "The Messenger of Allah ﷺ prayed day, and ascended the pulpit, and that. excep alarmed by that, and people" were standing and some were sitting. He gestured to them with his hand, telling them to sit.(Then he said:) By Allah,I am not standing here for something that will not benefit you, an exhortation or warning. Rather Tamim Dari has come to me and told me something that prevented me from taking a rest because of the joy and delight (I felt), and I wanted to spread that joy among you. A cousin of Tamim Dari told me that the wind drove them to an island that they did not know, so they sat in the rowing boats of the ship and set out. There they saw something black, with long eyelashes. They said to it: "What are you?" It said "I am Jassasah," They said: "Tell us." It said: "I will not tell you anything or ask you anything. Rather there is this monastery that you have looked at. Go to it, for there is a man there who is longing to hear your news and tell you news." So they Went there and entered upon him, and they saw an old man firmly shackled, with a sorrowful appearance and complaining a great deal. He said to them: "Where have you come from?" They said: "From Sham." He said: How are the Arabs faring?" They said: "We are from among the Arabs. What do you want to ask about?" He said: "What has man done who has appeared among you?" They said: "(He has done) well. He made enemies of some people, but Allah supported him against them and now they have become one, with one God and one religion." He said: "What happened to the spring of Zughar?" They said: "It is good; we irrigate our crops from it and drink from it." He said: "What happened to the date-palms between Amman and Baisan?" They said: "They bear fruit every year." He said: "What happened to the Lake of Tiberias?" They said: "It overflows because of the abundance of water." He gave three deep sighs, then he said: "If I were to free myself from these chains, I would not leave any land without entering it on these two feet of mine, except for Taibah, for I have no way to enter it." The Prophet ﷺ said: My joy is so great. This (Al-Madinah) is Taibah, and by the One in Whose Hand is my soul, there is no narrow or broad road in it, or any plain or mountain, but there is an angel (standing) over it with his sword unsheathed, until the Day of Resurrection:" (Daif)
Top