سنن ابنِ ماجہ - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 4075
حدیث نمبر: 4075
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي،‏‏‏‏ أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ،‏‏‏‏ فَخَفَضَ فِيهِ وَرَفَعَ،‏‏‏‏ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ،‏‏‏‏ فَلَمَّا رُحْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا شَأْنُكُمْ؟،‏‏‏‏ فَقُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ،‏‏‏‏ فَخَفَضْتَ فِيهِ ثُمَّ رَفَعْتَ،‏‏‏‏ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ،‏‏‏‏ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ،‏‏‏‏ وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ،‏‏‏‏ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ،‏‏‏‏ عَيْنُهُ قَائِمَةٌ،‏‏‏‏ كَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ،‏‏‏‏ فَمَنْ رَآهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ،‏‏‏‏ إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ خَلَّةٍ بَيْنَ الشَّامِ،‏‏‏‏ وَالْعِرَاقِ،‏‏‏‏ فَعَاثَ يَمِينًا،‏‏‏‏ وَعَاثَ شِمَالًا،‏‏‏‏ يَا عِبَادَ اللَّهِ،‏‏‏‏ اثْبُتُوا،‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَمَا لُبْثُهُ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَرْبَعُونَ يَوْمًا،‏‏‏‏ يَوْمٌ كَسَنَةٍ،‏‏‏‏ وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ،‏‏‏‏ وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ،‏‏‏‏ وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ،‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ تَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فَاقْدُرُوا لَهُ قَدْرًا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ فَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ كَالْغَيْثِ اشْتَدَّ بِهِ الرِّيحُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَيَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ،‏‏‏‏ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ،‏‏‏‏ فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ،‏‏‏‏ وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ،‏‏‏‏ وَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًى،‏‏‏‏ وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا،‏‏‏‏ وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ،‏‏‏‏ ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ،‏‏‏‏ فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ،‏‏‏‏ فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ مَا بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ،‏‏‏‏ ثُمَّ يَمُرَّ بِالْخَرِبَةِ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ لَهَا:‏‏‏‏ أَخْرِجِي كُنُوزَكِ،‏‏‏‏ فَيَنْطَلِقُ،‏‏‏‏ فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ،‏‏‏‏ ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا،‏‏‏‏ فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ ضَرْبَةً فَيَقْطَعُهُ جِزْلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ،‏‏‏‏ ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ،‏‏‏‏ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ،‏‏‏‏ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ،‏‏‏‏ وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ،‏‏‏‏ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ،‏‏‏‏ وَإِذَا رَفَعَهُ يَنْحَدِرُ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ،‏‏‏‏ وَلَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ أَنْ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ،‏‏‏‏ إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرَفُهُ،‏‏‏‏ فَيَنْطَلِقُ حَتَّى يُدْرِكَهُ عِنْدَ بَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ،‏‏‏‏ ثُمَّ يَأْتِي نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى قَوْمًا قَدْ عَصَمَهُمُ اللَّهُ،‏‏‏‏ فَيَمْسَحُ وُجُوهَهُمْ،‏‏‏‏ وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ،‏‏‏‏ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ،‏‏‏‏ إِذْ أَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ:‏‏‏‏ يَا عِيسَى،‏‏‏‏ إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ،‏‏‏‏ وَأَحْرِزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ،‏‏‏‏ وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ،‏‏‏‏ وَهُمْ كَمَا قَالَ اللَّهُ:‏‏‏‏ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ سورة الأنبياء آية 96،‏‏‏‏ فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ،‏‏‏‏ فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا،‏‏‏‏ ثُمَّ يَمُرُّ آخِرُهُمْ،‏‏‏‏ فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ لَقَدْ كَانَ فِي هَذَا مَاءٌ مَرَّةً،‏‏‏‏ وَيَحْضُرُ نَبِيُّ اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمُ الْيَوْمَ،‏‏‏‏ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ،‏‏‏‏ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمُ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ،‏‏‏‏ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ،‏‏‏‏ وَيَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ،‏‏‏‏ فَلَا يَجِدُونَ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا قَدْ مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ،‏‏‏‏ وَنَتْنُهُمْ،‏‏‏‏ وَدِمَاؤُهُمْ،‏‏‏‏ فَيَرْغَبُونَ إِلَى اللَّهِ،‏‏‏‏ فَيُرْسِلُ عَلَيْهِمْ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ،‏‏‏‏ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ،‏‏‏‏ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَطَرًا لَا يُكِنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ،‏‏‏‏ وَلَا وَبَرٍ فَيَغْسِلُهُ،‏‏‏‏ حَتَّى يَتْرُكَهُ كَالزَّلَقَةِ،‏‏‏‏ ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَنْبِتِي ثَمَرَتَكِ،‏‏‏‏ وَرُدِّي بَرَكَتَكِ،‏‏‏‏ فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنَ الرِّمَّانَةِ فَتُشْبِعُهُمْ،‏‏‏‏ وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا،‏‏‏‏ وَيُبَارِكُ اللَّهُ فِي الرِّسْلِ،‏‏‏‏ حَتَّى إِنَّ اللِّقْحَةَ مِنَ الْإِبِلِ تَكْفِي الْفِئَامَ مِنَ النَّاسِ،‏‏‏‏ وَاللِّقْحَةَ مِنَ الْبَقَرِ تَكْفِي الْقَبِيلَةَ،‏‏‏‏ وَاللِّقْحَةَ مِنَ الْغَنَمِ تَكْفِي الْفَخِذَ،‏‏‏‏ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ رِيحًا طَيِّبَةً،‏‏‏‏ فَتَأْخُذُ تَحْتَ آبَاطِهِمْ فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلَّ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ وَيَبْقَى سَائِرُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ كَمَا تَتَهَارَجُ الْحُمُرُ،‏‏‏‏،‏‏‏‏ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ.
فتنہ دجال حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا نزول اور خروج یاجوج ماجوج۔
نواس بن سمعان کلابی ؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن) صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ نے دجال کا ذکر کیا تو اس میں آپ نے کبھی بہت دھیما لہجہ استعمال کیا اور کبھی روز سے کہا، آپ کے اس بیان سے ہم یہ محسوس کرنے لگے کہ جیسے وہ انہی کھجوروں میں چھپا ہوا ہے، پھر جب ہم شام کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہمارے چہروں پر خوف کے آثار کو دیکھ کر فرمایا: تم لوگوں کا کیا حال ہے ؟ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے جو صبح کے وقت دجال کا ذکر فرمایا تھا اور جس میں آپ نے پہلے دھیما پھر تیز لہجہ استعمال کیا تو اس سے ہمیں یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ انہی کھجوروں کے درختوں میں چھپا ہوا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے تم لوگوں پر دجال کے علاوہ اوروں کا زیادہ ڈر ہے، اگر دجال میری زندگی میں ظاہر ہوا تو میں تم سب کی جانب سے اس کا مقابلہ کروں گا، اور اگر میرے بعد ظاہر ہوا تو ہر انسان اس کا مقابلہ خود کرے گا، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ ہے (یعنی ہر مسلمان کا میرے بعد ذمہ دار ہے) دیکھو دجال جوان ہوگا، اس کے بال بہت گھنگریالے ہوں گے، اس کی ایک آنکھ اٹھی ہوئی اونچی ہوگی گویا کہ میں اسے عبدالعزی بن قطن کے مشابہ سمجھتا ہوں، لہٰذا تم میں سے جو کوئی اسے دیکھے اسے چاہیئے کہ اس پر سورة الکہف کی ابتدائی آیات پڑھے، دیکھو! دجال کا ظہور عراق اور شام کے درمیانی راستے سے ہوگا، وہ روئے زمین پر دائیں بائیں فساد پھیلاتا پھرے گا، اللہ کے بندو! ایمان پر ثابت قدم رہنا ۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کتنے دنوں تک زمین پر رہے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: چالیس دن تک، ایک دن ایک سال کے برابر، دوسرا دن ایک مہینہ کے اور تیسرا دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا، اور باقی دن تمہارے عام دنوں کی طرح ہوں گے ۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا اس دن میں جو ایک سال کا ہوگا ہمارے لیے ایک دن کی نماز کافی ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (نہیں بلکہ) تم اسی ایک دن کا اندازہ کر کے نماز پڑھ لینا ۔ ہم نے عرض کیا: زمین میں اس کے چلنے کی رفتار آخر کتنی تیز ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس بادل کی طرح جس کے پیچھے ہوا ہو، وہ ایک قوم کے پاس آ کر انہیں اپنی الوہیت کی طرف بلائے گا، تو وہ قبول کرلیں گے، اور اس پر ایمان لے آئیں گے، پھر وہ آسمان کو بارش کا حکم دے گا، تو وہ برسے گا، پھر زمین کو سبزہ اگانے کا حکم دے گا تو زمین سبزہ اگائے گی، اور جب اس قوم کے جانور شام کو چر کر واپس آیا کریں گے تو ان کے کوہان پہلے سے اونچے، تھن زیادہ دودھ والے، اور کوکھیں بھری ہوں گی، پہلو بھرے بھرے ہوں گے، پھر وہ ایک دوسری قوم کے پاس جائے گا، اور ان کو اپنی طرف دعوت دے گا، تو وہ اس کی بات نہ مانیں گے، آخر یہ دجال وہاں سے واپس ہوگا، تو صبح کو وہ قوم قحط میں مبتلا ہوگی، اور ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا، پھر دجال ایک ویران جگہ سے گزرے گا، اور اس سے کہے گا: تو اپنے خزانے نکال، وہاں کے خزانے نکل کر اس طرح اس کے ساتھ ہوجائیں گے جیسے شہد کی مکھیاں یعسوب (مکھیوں کے بادشاہ) کے پیچھے چلتی ہیں، پھر وہ ایک ہٹے کٹے نوجوان کو بلائے گا، اور تلوار کے ذریعہ اسے ایک ہی وار میں قتل کر کے اس کے دو ٹکڑے کر دے گا، ان دونوں ٹکڑوں میں اتنی دوری کر دے گا جتنی دوری پر تیر جاتا ہے، پھر اس کو بلائے گا تو وہ شخص زندہ ہو کر روشن چہرہ لیے ہنستا ہوا چلا آئے گا، الغرض دجال اور دنیا والے اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بھیجے گا، وہ دمشق کے سفید مشرقی مینار کے پاس دو زرد ہلکے کپڑے پہنے ہوئے اتریں گے، جو زعفران اور ورس سے رنگے ہوئے ہوں گے، اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے ہوں گے، جب وہ اپنا سر جھکائیں گے تو سر سے پانی کے قطرے ٹپکیں گے، اور جب سر اٹھائیں گے تو اس سے پانی کے قطرے موتی کی طرح گریں گے، ان کی سانس میں یہ اثر ہوگا کہ جس کافر کو لگ جائے گی وہ مرجائے گا، اور ان کی سانس وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر کام کرے گی۔ پھر عیسیٰ (علیہ السلام) چلیں گے یہاں تک کہ اس (دجال) کو باب لد کے پاس پکڑ لیں گے، وہاں اسے قتل کریں گے، پھر دجال کے قتل کے بعد اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) ان لوگوں کے پاس آئیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے دجال کے شر سے بچا رکھا ہوگا، ان کے چہرے پر ہاتھ پھیر کر انہیں تسلی دیں گے، اور ان سے جنت میں ان کے درجات بیان کریں گے، یہ لوگ ابھی اسی کیفیت میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف وحی نازل کرے گا: اے عیسیٰ! میں نے اپنے کچھ ایسے بندے پیدا کئے ہیں جن سے لڑنے کی طاقت کسی میں نہیں، تو میرے بندوں کو طور پہاڑ پر لے جا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کو بھیجے گا، اور وہ لوگ ویسے ہی ہوں گے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: من کل حدب ينسلون یہ لوگ ہر ٹیلے پر سے چڑھ دوڑیں گے (سورة الأنبياء: 96) ان میں کے آگے والے طبریہ کے چشمے پر گزریں گے، تو اس کا سارا پانی پی لیں گے، پھر جب ان کے پچھلے لوگ گزریں گے تو وہ کہیں گے: کسی زمانہ میں اس تالاب کے اندر پانی تھا، اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی طور پہاڑ پر حاضر رہیں گے ١ ؎، ان مسلمانوں کے لیے اس وقت بیل کا سر تمہارے آج کے سو دینار سے بہتر ہوگا، پھر اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے، چناچہ اللہ یاجوج و ماجوج کی گردن میں ایک ایسا پھوڑا نکالے گا، جس میں کیڑے ہوں گے، اس کی وجہ سے (دوسرے دن) صبح کو سب ایسے مرے ہوئے ہوں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے، اور اللہ کے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی طور پہاڑ سے نیچے اتریں گے اور ایک بالشت کے برابر جگہ نہ پائیں گے، جو ان کی بدبو، خون اور پیپ سے خالی ہو، عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹ کی گردن کی مانند پرندے بھیجے گا جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا وہاں پھینک دیں گے، پھر اللہ تعالیٰ (سخت) بارش نازل کرے گا جس سے کوئی پختہ یا غیر پختہ مکان چھوٹنے نہیں پائے گا، یہ بارش ان سب کو دھو ڈالے گی، اور زمین کو آئینہ کی طرح بالکل صاف کر دے گی، پھر زمین سے کہا جائے گا کہ تو اپنے پھل اگا، اور اپنی برکت ظاہر کر، تو اس وقت ایک انار کو ایک جماعت کھا کر آسودہ ہوگی، اور اس انار کے چھلکوں سے سایہ حاصل کریں گے اور دودھ میں اللہ تعالیٰ اتنی برکت دے گا کہ ایک اونٹنی کا دودھ کئی جماعتوں کو کافی ہوگا، اور ایک دودھ دینے والی گائے ایک قبیلہ کے لوگوں کو کافی ہوگی، اور ایک دودھ دینے والی بکری ایک چھوٹے قبیلے کو کافی ہوگی، لوگ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا وہ ان کی بغلوں کے تلے اثر کرے گی اور ہر مسلمان کی روح قبض کرے گی، اور ایسے لوگ باقی رہ جائیں گے جو جھگڑالو ہوں گے، اور گدھوں کی طرح لڑتے جھگڑتے یا اعلانیہ جماع کرتے رہیں گے، تو انہی (شریر) لوگوں پر قیامت قائم ہوگی ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الفتن ٢٠ (٢١٣٧)، سنن ابی داود/الملاحم ١٤ (٤٣٢١)، سنن الترمذی/الفتن ٥٩ (٢٢٤٠)، (تحفة الأشراف: ١١٧١١)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/١٨١، ١٨٢) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اردن پہاڑ جہاں سے عیسیٰ (علیہ السلام) غائب ہو کر آسمان پر چڑھ گئے تھے، اور دوسرا شخص آپ کی صورت بن کر گیا تو یہودیوں نے اس کو سولی پر چڑھا دیا، یہ مضمون اگرچہ انجیل کے چار مشہور نسخوں میں ہے، لیکن نصاریٰ نے ان میں تحریف کی ہے اور برنباس کی انجیل میں مضمون اسی طرح موجود ہے جیسے قرآن شریف میں ہے، اور اس میں رسول اکرم کے پیدا ہونے کی بشارت بھی صاف طور سے موجود ہے، اور آپ کا نام مبارک بھی ہے کہ جب اللہ کے رسول محمد آئیں گے تو میرے اوپر سے یہ اتہام رفع ہوگا کہ میں سولی دیا گیا، حافظ ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں ایک سفید منارہ ٧٤١ میں وہاں پایا گیا اور یہ آپ کی نبوت کی ایک بڑی نشانی ہے، اور رسول اکرم نے ایسی بہت ساری باتوں کی پیش گوئی کی ہے جو آپ کے عہد میں نہ تھیں من جملہ ان میں سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے کہ جب عثمان ؓ نے قرآن جمع کیا کہ میرے ساتھ وہ لوگ بہت محبت کریں گے جو میرے بعد میرے اوپر ایمان لائیں گے، اور جو کچھ ورق (یعنی مصحف) میں ہوگا اس پر عمل کریں گے، ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ پہلے میں نے ورق کو نہیں سمجھا تھا، جب عثمان ؓ نے مصحف لکھوائے تو میں نے ورق کا معنی سمجھا، عثمان ؓ نے ابوہریرہ ؓ کو اس حدیث کے بیان کرنے پر دس ہزار درہم دیئے، اور بعض حدیثوں میں ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بیت المقدس میں اتریں گے اور بعض میں ہے کہ مسلمانوں کے لشکر میں لیکن بیت المقدس کی روایت بہت مشہور ہے، اور اردن اس سارے محلہ کا نام ہے جہاں پر بیت المقدس ہے، اور اگر وہاں اب سفید مینار نہیں ہے تو آئندہ بن جائے گا اور جس نے صحیح حدیث کا انکار کیا وہ جاہل اور گمراہ ہے۔
Top