سنن ابنِ ماجہ - فیصلوں کا بیان - حدیث نمبر 2365
حدیث نمبر: 2365
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ الْجُبَيْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏ وَجَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ الْعَتَكِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ الْعِجْلِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَاعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي نَضْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى حَتَّى بَلَغَ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا سورة البقرة آية 282 ـ 283 فَقَالَ:‏‏‏‏ هَذِهِ نَسَخَتْ مَا قَبْلَهَا.
قرضوں پر گواہ بنانا
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے آیت کریمہ: يا أيها الذين آمنوا إذا تداينتم بدين إلى أجل مسمى کی تلاوت کی، یہاں تک کہ فإن أمن بعضکم بعضا یعنی اے ایمان والو! جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرر پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور لکھنے والے کو چاہیئے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے، کاتب کو چاہیئے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے اسے سکھایا ہے، پس اسے بھی لکھ دینا چاہیئے اور جس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اور اپنے اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے، اور حق میں سے کچھ گھٹائے نہیں، ہاں جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ اگر نادان ہو یا کمزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوا دے، اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کرلو، تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو چاہیئے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی اور شک و شبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ معاملہ نقد تجارت کی شکل میں ہو جو آپس میں تم لین دین کر رہے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں، خریدو فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کرلیا کرو، اور (یاد رکھو کہ) نہ تو لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو اور اگر تم یہ کرو گے تو یہ تمہاری کھلی نافرمانی ہے، اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو، ہاں اگر آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو تو جیسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کر دے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے، اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپالے وہ گنہگار دل والا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے (سورۃ البقرہ: ٢٨٢ ، ٢٨٣ ) تک پہنچے تو فرمایا: اس آیت نے اس پہلی والی آیت کو منسوخ کردیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ٤٣٦٤، ومصباح الزجاجة: ٨٢٩) (حسن )
وضاحت: ١ ؎: اور بعض علماء نے کہا کہ سابقہ آیت منسوخ نہیں ہے اس لئے کہ وہ استحبابی حکم تھا، واجب نہ تھا اور مستحب یہی ہے کہ جب قرض لیا جائے تو اس کو لکھیں اور گواہ بنالیں کیونکہ زندگی کا اعتبار نہیں ہے ایسا نہ ہو کہ دائن (قرض خواہ) یا مدیون (مقروض) مرجائے اور ان کے وارثوں میں جھگڑا ہو یا مدیون کے ذمہ قرض رہ جائے اس کے وارث ادا نہ کریں تو عاقبت کا مواخذہ رہے۔
It was narrated that Abu Saeed Al-Khudri recited this Verse: "O you who believe! When you contract a debt for a fixed period ..." until: "then if one of you entrusts the other." Then he said: "This abrogates what came before”.
Top