سنن ابنِ ماجہ - نکاح کا بیان - حدیث نمبر 1996
حدیث نمبر: 1996
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شَيْبَانَ أَبِي مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَهْمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مِنَ الْغَيْرَةِ مَا يُحِبُّ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْهَا مَا يَكْرَهُ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا مَا يُحِبُّ، ‏‏‏‏‏‏فَالْغَيْرَةُ فِي الرِّيبَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا مَا يَكْرَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَالْغَيْرَةُ فِي غَيْرِ رِيبَةٍ.
غیرت کا بیان
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بعض غیرت اللہ کو پسند ہے اور بعض ناپسند، جو غیرت اللہ کو پسند ہے وہ یہ ہے کہ شک و تہمت کے مقام میں غیرت کرے، اور جو غیرت ناپسند ہے وہ غیر تہمت و شک کے مقام میں غیرت کرنا ہے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ١٥٤٣٨، ومصباح الزجاجة: ٧٠٩) (صحیح) (اس کی سند میں أبی سھم مجہول ہے لیکن یہ حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: ابوداود: ٢٦٥٩ و نسائی و احمد: ٥ /٤٤٥ - ٤٤٦ و الإرواء: ١٩٩٩ )
وضاحت: ١ ؎: یہ وقت ایسا ہے کہ اللہ کی پناہ، بدمعاش لوگ کسی نیک بخت عورت کی نسبت ایک جھوٹی تہمت لگا دیتے ہیں تاکہ اس کا شوہر غیرت میں آ کر کوئی کام کر بیٹھے، اس کا گھر تباہ و برباد ہو، حسد کرنے والوں کو اس میں خوشی ہوتی ہے، یہ وقت بڑے تحمل اور استقلال کا ہے، انسان کو اس میں سوچ سمجھ کر کام کرنا چاہیے، جلدی ہرگز نہ کرنی چاہیے، اور شریعت کے مطابق گواہی لینی چاہیے، اگر ایسے سچے اور نیک گواہوں کی گواہی نہ ملے تو سمجھ لے کہ یہ حاسدوں اور دشمنوں کا فریب ہے، جو اس کا گھر تباہ کرنا چاہتے تھے، اللہ پاک حاسدوں اور دشمنوں کے شر سے بچائے، نبی اکرم کو بھی ایذادہی سے نہ چھوڑا، ام المؤمنین عائشہ ؓ پر جھوٹی تہمت باندھی، طوفان اٹھایا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو جھٹلایا اور ام المؤمنین عائشہ ؓ کی براءت ان کے سامنے نازل کی جس کی تلاوت قیامت تک کی جاتی رہے گی۔
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the essenger of Allah ﷺ said: “There is a kind of protective jealousy that Allah loves and a kind that Allah hates. As for that which Allah loves, it is protective jealousy when there are grounds for suspicion. And as for that which He hates, it is protective jealousy when there are no grounds for suspicion.” (Sahih)
Top