سنن ابنِ ماجہ - وراثت کا بیان - حدیث نمبر 2721
حدیث نمبر: 2721
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي قَيْسٍ الْأَوْدِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْهُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ الْبَاهِلِيِّ فَسَأَلَهُمَا عَنِ ابْنَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ لِأَبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأُمٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَا:‏‏‏‏ لِلِابْنَةِ النِّصْفُ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ، ‏‏‏‏‏‏وَائْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنَا فَأَتَى الرَّجُلُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَأَلَهُ وَأَخْبَرَهُ بِمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا وَلَكِنِّي سَأَقْضِي بِمَا قَضَى بِهِ مِنَ الْمُهْتَدِينَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لِلِابْنَةِ النِّصْفُ وَلِابْنَةِ الِابْنِ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ.
اولاد کے حصوں کا بیان۔
ہذیل بن شرحبیل ؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی ابوموسیٰ اشعری اور سلمان بن ربیعہ باہلی ؓ کے پاس آیا، اور ان سے اس نے بیٹی، پوتی اور حقیقی بہن کے (حصہ کے) بارے میں پوچھا، تو ان دونوں نے کہا: آدھا بیٹی کے لیے ہے، اور جو باقی بچے وہ بہن کے لیے ہے، لیکن تم عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس جاؤ، اور ان سے بھی معلوم کرلو، وہ بھی ہماری تائید کریں گے، وہ عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس آیا، اور ان سے بھی مسئلہ معلوم کیا، نیز بتایا کہ ابوموسیٰ اشعری، اور سلمان بن ربیعہ ؓ نے یہ بات بتائی ہے، تو عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا: اگر میں ایسا حکم دوں تو گمراہ ہوگیا، اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہ رہا، لیکن میں وہ فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا، بیٹی کے لیے آدھا، اور پوتی کے لیے چھٹا حصہ ہے، اس طرح دو تہائی پورے ہوجائیں، اور جو ایک تہائی بچا وہ بہن کے لیے ہے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الفرائض ٨ (٦٧٣٦)، سنن ابی داود/الفرائض ٤ (٢٨٩٠)، سنن الترمذی/الفرائض ٤ (٢٠٩٣)، (تحفة الأشراف: ٩٥٩٤)، وقد أخرجہ: مسند احمد (١/٣٨٩، ٤٢٨، ٤٤٠، ٤٦٣)، سنن الدارمی/الفرائض ٧ (٢٩٣٢) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یعنی ترکہ کے مال کو چھ حصوں میں بانٹ دیا جائے، تین حصہ بیٹی کو، ایک پوتی کو اور دو حصے بہن کو ملیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مرنے والے کی ایک لڑکی کے ساتھ اس کی پوتیاں بھی ہوں یا ایک ہی پوتی ہو تو آدھا حصہ بیٹی کو ملے گا اور دو تہائی ٢ -٣ پوتیوں پر برابر تقسیم ہوجائے گا، اور بہنیں بیٹی کے ساتھ عصبہ ہوجاتی ہیں یعنی بیٹیوں کے حصہ سے جو بچ رہے وہ بہنوں کو مل جاتا ہے، دوسری روایت میں یوں ہے کہ جب ابوموسی اشعری ؓ نے عبداللہ بن مسعود ؓ کا یہ جواب سنا تو کہا کہ مجھ سے کوئی مسئلہ مت پوچھو جب تک یہ عالم تم میں موجود ہے، اور جمہور علماء اس فتوی میں ابن مسعود ؓ کے ساتھ ہیں، لیکن عبداللہ بن عباس ؓ کا قول یہ ہے کہ بیٹی کے ہوتے ہوئے بہن میراث سے محروم ہوجاتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشا ہے:يستفتونک قل الله يفتيكم في الکلالة إن امرؤ هلک ليس له ولد وله أخت فلها نصف ما ترک وهو يرثهآ إن لم يكن لها ولد فإن کانتا اثنتين فلهما الثلثان مما ترک وإن کانوا إخوة رجالا ونساء فللذکر مثل حظ الأنثيين (سورة النساء: 176) اے رسول! لوگ آپ سے (کلالہ کے بارے میں) فتویٰ پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ خود تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے، اگر کوئی آدمی مرجائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اس کے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ اس بہن کو (حقیقی ہو یا علاتی) ترکہ ملے گا، اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہوگا، اگر اولاد نہ ہو پس اگر دو بہنیں ہوں تو انہیں ترکہ کا دو تہائی ملے گا، اور اگر کئی شخص اس رشتہ کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لیے عورتوں کے دوگنا حصہ ہے) اور ولد کا لفظ عام ہے، بیٹا اور بیٹی دونوں کو شامل ہے، تو معلوم ہوا کہ بہن دونوں سے محروم ہوجاتی ہے۔ جمہور کہتے ہیں کہ ولد سے یہاں بیٹا مراد ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آگے یوں فرمایا: وهو يرثهآ إن لم يكن لها ولد (سورة النساء: 176) ... اور اگر وہ بہن مرجائے تو یہ بھائی اس کا وارث ہوگا، بشرطیکہ اس مرنے والی بہن کی اولاد نہ ہو (اور نہ ہی باپ) ... اور یہاں بالاجماع ولد سے بیٹا مراد ہے، اس لئے کہ اجماعاً مرنے والی کی لڑکی بھائی کو محروم نہیں کرسکتی۔
It was narrated that Huzail bin Shurahbil said: "A man came to Abu Musa AI-Ash ari and Salman bin Rabi ah Al-Bahili and asked them about (the shares of) a daughter, a sons daughter, a sister through ones father and mother. They said: The daughter gets one half, and what is left goes to the sister. Go to Ibn Masud, for he will concur with what we say: So the man went to Ibn Masud, and told him what they had said. Abdullah said: I will go astray and will not be guided (if I say that I agree); but I Will judge as the Messenger of Allah ﷺ judged. The daughter gets one half, and the sons daughter gets one-sixth. That makes two-thirds. And what is left goes to the sister:" (Sahih)
Top