سنن ابنِ ماجہ - وصیتوں کا بیان - حدیث نمبر 2696
حدیث نمبر: 2696
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى:‏‏‏‏ أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَكَيْفَ أَمَرَ الْمُسْلِمِينَ بِالْوَصِيَّةِ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ.
کیا اللہ کے رسول ﷺ نے کوئی وصیت فرمائی؟
طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے کسی چیز کی وصیت کی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، میں نے کہا: پھر کیوں کر مسلمانوں کو وصیت کا حکم دیا؟ تو انہوں نے کہا: آپ ﷺ نے اللہ کی کتاب (قرآن) پر چلنے کی وصیت فرمائی ١ ؎۔ مالک کہتے ہیں: طلحہ بن مصرف کا بیان ہے کہ ہزیل بن شرحبیل نے کہا: بھلا ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے وصی پر حکومت کرسکتے تھے؟ ابوبکر ؓ کا تو یہ حال تھا کہ اگر وہ آپ ﷺ کا حکم پاتے تو تابع دار اونٹنی کی طرح اپنی ناک میں (اطاعت کی) نکیل ڈال لیتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوصایا ١ (٢٧٤٠)، المغازي ٨٣ (٤٤٦٠)، فضائل القران ١٨ (٥٠٢٢)، صحیح مسلم/الوصایا ٥ (١٦٣٤)، سنن الترمذی/الوصایا ٤ (٢١١٩)، سنن النسائی/الوصایا ٢ (٣٦٥٠)، (تحفة الأ شراف: ٥١٧٠، ١٩٥٠٧)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/٣٥٤، ٣٥٥، ٣٨١)، سنن الدارمی/الوصایا ٣ (٣٢٢٤) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یعنی اس حکم پر سب سے پہلے ابوبکر ؓ چلتے اس کے بعد اور لوگ، کیونکہ ابوبکر ؓ سب صحابہ سے زیادہ نبی اکرم کے مطیع تھے، ان کے بارے میں گمان بھی نہیں ہوسکتا کہ نبی کریم نے کسی اور کو خلیفہ بنانے کے لئے فرمایا ہو اور خود خلافت لے لیں، بلکہ ابوبکر ؓ کو تو خلافت کی خواہش ہی نہ تھی، جب ثقیفہ بنو ساعدہ میں صلاح و مشورہ ہوا تو ابوبکر ؓ نے یہ رائے دی کہ دو آدمیوں میں سے ایک کے ہاتھ بیعت کرلو، عمر بن خطاب کے ہاتھ پر یا ابو عبیدہ بن جراح کے ہاتھ پر، اور اپنا نام ہی نہ لیا، لیکن عمر ؓ نے زبردستی ان سے بیعت کی، اس پر صحابہ کرام ؓ نے بھی بیعت کرلی، آسمان گرپڑے اور زمین پھٹ جائے ان بےایمانوں پر جو نبی کریم کے جانثار جانباز صحابہ کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں، اور معاذ اللہ یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم نے صراحۃ علی ؓ کو اپنے بعد خلیفہ بنایا تھا اور صحابہ اس کو جانتے تھے، لیکن عمداً انہوں نے علی ؓ کا حق دبایا اور ابوبکر ؓ کو خلیفہ بنایا: سبحانک هذا بهتان عظيم (سورة النور: 16) اگر صراحت تو کیا نبی کریم کا ذرا بھی اشارہ ہوتا کہ آپ کے بعد علی ؓ خلیفہ ہیں تو تمام صحابہ جان و دل سے اس حکم کی اطاعت کرتے، اور علی ؓ کو اسی وقت خلیفہ بناتے بلکہ خلافت کے لئے مشورہ ہی نہ کرتے، کیونکہ جو امر منصوص ہو اس میں صلاح و مشورہ کی کیا حاجت ہے، اگر بالفرض ابوبکر صدیق ؓ نے اس حکم کے خلاف بھی کیا ہوتا تو انصار جن کی جماعت بہت تھی وہ کیونکر ابوبکر ؓ کی خلافت قبول کرلیتے بلکہ حدیث پر چلنے کے لئے ان کو مجبور کردیتے، وہ تو حدیث کے ایسے ماننے والے تھے کہ جب ابوبکر ؓ نے یہ حدیث سنائی: الأ ئم ۃ من قریش امام قریش میں سے ہوں گے تو انہوں نے اپنی امامت کا دعوی چھوڑ دیا، پھر وہ دوسرے کی امامت حدیث کے خلاف کیسے مانتے، اور سب سے زیادہ تعجب یہ ہے کہ بنی ہاشم اور خود علی ؓ ابوبکر ؓ کی خلافت کیسے تسلیم کرتے اور ان سے بیعت کیوں کرتے، برا ہو ان کا جو علی ؓ کو ایسا بزدل مانتے ہیں کہ اپنا واجبی حق بھی نہ لے سکے، معاذ اللہ یہ سب دروغ بےفروغ ہے۔
It was narrated from Milik bin Mighwal that Talhah bin Musarrif said: "I said to Abdullah bin Abu Awfa: Did the Messenger of Allah ﷺ make a will concerning anything? He said: No: I said: How come he told the Muslims to make wills? He said: He enjoined (them to adhere to) the Book of Allah:" Malik said: "Talhah bin Musarrif said: Huzail bin Shurahbil said: " Abu Bakr (RA) was granted leadership according to the will of Allahs Messenger?" (Rather) Abu Bakr (RA) wished that he found a covenant (in that regard) from Allahs Messenger, so he could fetter his nose with a (camels) nose ring:"
Top