سنن ابنِ ماجہ - کھانوں کے ابواب - حدیث نمبر 3253
حدیث نمبر: 3251
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، ‏‏‏‏‏‏انْجَفَلَ النَّاسُ قِبَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقِيلَ:‏‏‏‏ قَدْ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏فَجِئْتُ فِي النَّاسِ لِأَنْظُرَ فَلَمَّا تَبَيَّنْتُ وَجْهَهُ،‏‏‏‏ عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ أَوَّلُ شَيْءٍ سَمِعْتُهُ تَكَلَّمَ بِهِ،‏‏‏‏ أَنْ قَالَ:‏‏‏‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ، ‏‏‏‏‏‏تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ.
کھانا کھلانے کی فضیلت
عبداللہ بن سلام ؓ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کی طرف تیزی سے بڑھے، اور کہا گیا کہ اللہ کے رسول آگئے، اللہ کے رسول آگئے، اللہ کے رسول آگئے، یہ تین بار کہا، چناچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ پہنچا تاکہ (آپ کو) دیکھوں، جب میں نے آپ ﷺ کا چہرہ اچھی طرح دیکھا تو پہچان گیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا نہیں ہوسکتا، اس وقت سب سے پہلی بات جو میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنی وہ یہ کہ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رشتوں کو جوڑو، اور رات میں جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز ادا کرو، (ایسا کرنے سے) تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو گے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: أنظرحدیث رقم: ١٣٣٤، (تحفة الأشراف: ٥٣٣١) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یعنی جب یہ سارے اچھے کام کرو گے تو ضرور تم کو جنت ملے گی، سبحان اللہ کیا عمدہ نصیحتیں ہیں، اور یہ سب اصولی ہیں، سعادت و نیک بختی اور خوش اخلاقی کے ناتے جوڑنا، یعنی اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ عمدہ سلوک کرنا، امام نووی کہتے ہیں کہ ابتداً سلام کرنا سنت ہے اور سلام کا جواب دینا واجب ہے، اگر جماعت کو سلام کرے تو بعضوں کا جواب دینا کافی ہوگا، اور افضل یہ ہے کہ جماعت میں ہر ایک ا بتداء سلام کرے، اور ہر ایک جواب ضروری دے اور کم درجہ یہ ہے کہ السلام علیکم کہے اور کامل یہ ہے کہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے، اور السلام علیکم تو اتنی آواز سے کہنا کہ مخاطب سنے، اسی طرح سلام کا فوری جواب دینا ضروری ہے، جب کوئی شخص غائب کی طرف سے سلام پہنچائے اور بہتر ہے کہ یوں کہے علیک وعلیہ السلام، السلام علیکم الف ولام کے ساتھ افضل ہے، سلام علیکم بغیر الف اور لام کے بھی درست ہے، اور قرآن شریف میں ہے: سلام عليكم طبتم فادخلوها خالدين (سورة الزمر: 73)۔
It was narrated from Abdullah bin ‘Amr that a man asked the Messenger of Allah ﷺ "O Messenger of Allah, which (aspect) of Islam is the best?" He said: "Offering food (to the needy) and greeting with Salam those whom you know and those whom you do not know."
Top