معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 102
عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " بَيْنَا أَنَا أَسِيرُ فِي الجَنَّةِ، إِذَا أَنَا بِنَهَرٍ، حَافَتَاهُ قِبَابُ الدُّرِّ المُجَوَّفِ، قُلْتُ: مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ؟ قَالَ: هَذَا الكَوْثَرُ، الَّذِي أَعْطَاكَ رَبُّكَ، فَإِذَا طِينُهُ مِسْكٌ أَذْفَرُ ".(رواه البخارى)
حوض وکثر ، صراط اور میزان
انس سے روایت ہے کہتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس اثنا میں کہ میں جنت میں چلا جا رہا تھا، میرا گذر ایک (عجیب و غریب) نہر پر ہوا، اس کے دونوں جانب "در مجوف" سے (یعنی اندر سے خالی کئے ہوئے موتیوں سے) تیار کئے ہوئے قبے تھے، میں نے جبرئیل سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟جبرئیل نے بتلایا یہ وہ کوثر ہے جو آپ کے رب نے آپ کو عطا فرمایا ہے، میں نے دیکھا کہ اس کی مٹی (جو اس کی تہہ میں تھی) وہ نہایت مہکنے والے مشک کی طرح خوشبو دار تھی۔ (بخاری)

تشریح
حدیثوں میں آخرت کی جن چیزوں کا نام کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ان میں سے یہ تین چیزیں بھی ہیں، ایک حوضِ کوثر، دوسری صِراط اور تیسری میزان۔ پھر کوثر کر بعض احادیث میں حوض کے لفظ سے بھی ذکر کیا گیا ہے اور بعض میں نہر کے لفظ سے۔ پھر بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوثر جنت کے اندر واقع ہے، اور اکثر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہاس کا محل وقوع جنت سے باہر ہے اور اہل ایمان جنت میں جانے سے پہلے اس حوض پر رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں باریاب ہو کر آپ کے دستِ کرم سے اس کا نہایت سفید و شفاف اور بے انتہا لذیذہ و شیریں پانی نوش جان کریں گے، اور تحقیق یہ ہے کہ کوثر کا اصل مرکزی چشمہ جنت کے اندر ہے، اور جنت کے طور و عرض میں اس کی شاخیں نہروں کی شکل میں ہرطرف جاری ہین۔ اور جس کو حوضِ کوثر کہا جاتا ہے وہ سینکڑوں میل کے طول و عرض میں ایک نہایت حسین و جمیل تالاب ہے جو جنت سے باہر ہے لیکن اس کا تعلق اسی جنت کے اندر کے چشمہ سے ہے، گویا اس میں جو پانی ہو گا وہ جنت ہی کے اس چشمہ سے نہروںکے ذریعہ آئے گا۔ آج کل کے متمدن شہروں میں واٹر ورکس جو نظام ہے اس نے کوثر کی اس نوعیت کا سمجھنا الحمد للہ سب کے لیے آسان کر دیا ہے۔ یہاں ایک چیز بھی قابلِ لحاظ ہے کہ حوض کے لفظ سے عموماً لوگوں کا ذہن اسی قسم کے حوضوں کی طرف جاتا ہے جس قسم کے حوض انہوں نے عموماً دنیا میں دیکھے ہوتے ہیں، لیکن حوض کوثر اپنی معنوی کیفیات اور اپنی خوش منظری میں تو دنیا کے حوضوں سے اتنا ممتاز اور فائق ہو گا ہی جتنا کہ جنت کی کسی چیز کو دنیا کی چیزوں کے مقابلے میں ہونا چاہئے، مگر اس کے علاوہ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا رقبہ اور علاقہ بھی اتنا ہو گا، کہ ایک راہروا سکے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک کی مسافت ایک مہینے میں طے کر سکے گا اور ایک حدیث میں اس کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے کا فاصلہ عدن اور عمان کے فاصلے کے برابر بتلایا گیا ہے۔ بہر حال آخرت کی چیزوں کے متعلق احادیث میں جو کچھ ذکر کیا جاتا ہے اس کی روشنی میں بھی ان چیزوں کا صحیح تصور اس دنیا میں نہیں کیا جا سکتا، ان چیزوں کی جو واقعی نوعیت اور صورت ہے وہ صحیح طور پر تو سامنے آنے کے بعد ہی معلوم ہو گی۔ یہی بات صراط اور میزان وغیرہ کے بارے میں بھی ملحوظ رہنی چاہیے۔ تشریح۔۔۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے جنت میں سیر کرتے ہوئے نہر کوثر پر گذرنے کا جو واقعہ ذکر فرمایا ہے، غالباً یہ شب معراج کا ہے، اور حضرت جبرئیل نے رسول اللہ ﷺ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے جو یہ فرمایا کہ "یہ وہ کوثر ہے جو آپ کے رب نے آپ کو عطا کیا ہے"۔ تو یہ قرآن مجید کی آیت "إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الكَوْثَرَ"کی طرف اشارہ ہے، اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ "ہم نے آپ کو کوثر دیا" کوثر کے اصل معنی خیر کثیر کے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو خیر کے جو خزانے عطا فرمائے، مثلاً قرآن و شریعت اور اعلیٰ روحانی صفات، اور دنیا اور آخرت میں آپ کی رفعتِ شان وغیرہ، سو یہ سب بھی کوثر کے عموم میں اگرچہ داخل ہیں، لیکن جنت کی یہ نہر اور اس سے متعلق وہ حوض جو میدانِ حشر میں ہو گا (جس سے اللہ کے بےشمار بندے سیراب ہوں گے) لفظِ کوثر کا خاص مصداق ہیں، یا یوں سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دین و ایمان کے سلسلہ کی جو بیش بہا نعمتیں عطا فرمائی تھیں، جو آپ کے ذریعے سے اللہ کے بے شمار بندوں تک پہنچیں، آخرت میں ان کا ظہور اس نہر کوثر اور حوضِ کوثر کی شکل میں ہو گا، جن سے اللہ کے بے شمار بندے فیضیاب اور سیراب ہوں گے۔
Top