معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 10
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَوْ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ - شَكَّ الْأَعْمَشُ - قَالَ: لَمَّا كَانَ غَزْوَةُ تَبُوكَ أَصَابَ النَّاسَ مَجَاعَةٌ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، لَوْ أَذِنْتَ لَنَا فَنَحَرْنَا نَوَاضِحَنَا، فَأَكَلْنَا وَادَّهَنَّا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «افْعَلُوا»، قَالَ: فَجَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ فَعَلْتَ قَلَّ الظَّهْرُ، وَلَكِنْ ادْعُهُمْ بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ، ثُمَّ ادْعُ اللهَ لَهُمْ عَلَيْهَا بِالْبَرَكَةِ، لَعَلَّ اللهَ أَنْ يَجْعَلَ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ»، قَالَ: فَدَعَا بِنِطَعٍ، فَبَسَطَهُ، ثُمَّ دَعَا بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ، قَالَ: فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِكَفِّ ذُرَةٍ، قَالَ: وَيَجِيءُ الْآخَرُ بِكَفِّ تَمْرٍ، قَالَ: وَيَجِيءُ الْآخَرُ بِكَسْرَةٍ حَتَّى اجْتَمَعَ عَلَى النِّطَعِ مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ يَسِيرٌ، قَالَ: فَدَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ بِالْبَرَكَةِ، ثُمَّ قَالَ: «خُذُوا فِي أَوْعِيَتِكُمْ»، قَالَ: فَأَخَذُوا فِي أَوْعِيَتِهِمْ، حَتَّى مَا تَرَكُوا فِي الْعَسْكَرِ وِعَاءً إِلَّا مَلَئُوهُ، قَالَ: فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، وَفَضَلَتْ فَضْلَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ، لَا يَلْقَى اللهَ بِهِمَا عَبْدٌ غَيْرَ شَاكٍّ، فَيُحْجَبَ عَنِ الْجَنَّةِ» (رواه مسلم)
سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے
اعمش تابعی نے اپنے استاذ ابو صالح سے اس شک کے ساتھ نقل کیا کہ انہوں نے حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کیا تھا، یا (ابو سعید خدریؓ سے) کہ غزوہ تبوک کے دنوں میں (جب سامانِ خوراک ختم ہو گیا، اور) لوگوں کو بھوک نے ستایا، تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، کہ: "حضرت! اگر اجازت دیں، تو ہم پانی لانے والے اپنے اونٹوں کو ذبخ کر لیں، پھر ان کو کھا بھی لیں، اور ان سے روغن بھی حاصل کر لیں"۔ حضور نے فرمایا: "اچھا کر لو!" راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت عمرؓ آئے اور انہوں نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! اگر آپ نے ایسا کیا (یعنی لوگوں کو اگر اونٹ ذبح کرنے کی اجازت دے دی، اور لوگوں نے ذبح کر ڈالے) تو سواریاں کم ہو جائیں گی (لہذا ایسا تو نہ کیا جائے) "البتہ لوگوں کو آپ ان کے بچے کچھے سامانِ خوراک کے ساتھ بلا لیجئے، پھر ان کے واسطے اللہ سے اسی میں برکت کر دینے کی دُعا کیجئے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی میں برکت فرما دے گا"۔ حضور (ﷺ) نے فرمایا "ہاں ٹھیک ہے"۔ چنانچہ آپ نے چمڑے کا بڑا دسترخوان طلب فرمایا، پس وہ بچھا دیا گیا، پھر آپ نے لوگوں سے اُن کا بچا کچھا سامانِ خوراک منگوایا، پس کوئی آدمی مٹھی چینا کے دانے ہی لئے آ رہا ہے، کوئی ایک مٹھی کھجوریں لا رہا ہے، اور کوئی روٹی کا ایک ٹکڑا ہی لیے چلا آ رہا ہے، حتیٰ کہ دسترخوان پر تھوڑی سی مقدار میں یہ چیزیں جمع ہو گئیں، راوی کہتے ہیں، کہ رسول اللہ (ﷺ) نے پھر برکت کی دُعا فرمائی، اس کے بعد فرمایا: "اب تم سب اس میں سے اپنے اپنے برتنوں میں بھر لو"۔ چنانچہ سب نے اپنے اپنے برتن بھر لیے، حتی کے (قریباً ۳۰ ہزار کے لشکر میں) لوگوں نے ایک برتن بھی بغیر بھرے ہوئے نہیں چھوڑا، راوی کہتے ہیں، کہ پھر سب نے کھایا، حتی کے خوب سیر ہو گئے، اور کچھ فاضل بھی بچ رہا، اس پر رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا: "میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، نہیں ہے کوئی بندہ جو بغیر کسی شک شبہ کے کامل یقین و اذعان کے ساتھ ان دو شہادتوں کے ساتھ اللہ کے سامنے جائے، پھر وہ جنت سے روکا جائے"۔

تشریح
حدیث کا مضمون ظاہر ہے، جس مقصد سے اس حدیث کو یہاں در کیا گیا ہے اس کا تعلق حدیث کے صرف آخری جز سے ہے، جس میں رسول اللہ (ﷺ) نے اللہ کی توحید اور اپنی رسالت کی شہادت ادا کر کے اعلان فرمایا ہے کہ جو شخص بھی ان دو شہادتوں کو مخلصانہ طور پر ادا کرے، اور شک شبہ کی کوئی بیماری اُس کے دل دماغ کو نہ ہو، اور اسی ایمانی حال میں اُس کو موت آئے، تو وہ جنت میں ضرور جائے گا۔ جو لوگ قرآن و حدیث کے محاورہ اور طرز بیان سے کچھ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایسے موقعوں پر "اللہ کی توحید و رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی شہادت" ادا کرنے کا مطلب رسول اللہ ﷺ کی دعوت ایمان کو قبول کر لینا، اور آپ کے لائے ہوئے دین اسلام کو اپنا دین بنا لینا ہوتا ہے اور اسی لئے ان دو شہادتوں کے ادا کرنے کا مطلب ہمیشہ سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس شخص نے رسول اللہ ﷺ کی ایمانی دعوت کو قبول کر لیا، اور اسلام کو اپنا دینا بنا لیا۔ پس رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے ہے، کہ جو شخص "لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ " کی شہادت ادا کر کے میری ایمانی دعوت کو قبول کر لے، اور اسلام کو اپنا دین بنا لے، اور اس بارے میں وہ مخلص اور صاحب یقین ہو، تو اگر اسی حال میں وہ مر جائے گا، تو جنت میں ضرور جائے گا۔ پس اگر کوئی شخص "لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ " کا اقرار کرے لیکن اسلام کو اپنا دین نہ بنائے بلکہ کسی اور دین و مذہب پر قائم رہے، یا توحید و رسالت کے علاوہ دوسرے ایمانیات کا انکار کرے مثلاً قیامت کو یا قرآن مجید کو نہ مانے تو وہ ہرگز اس بشارت کا مستحق نہ ہو گا۔ الغرض اس حدیث میں توحید و روسالت کی شہادت ادا کرنے کا مطلب رسول اللہ ﷺ کی ایمانی دعوت کو قبول کرنا اور اسلام کو اپنا دین بنانا ہے، اسی طرح جن حدیثوں میں صرف توحید پر، اور صرف " لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ " کے اقرار پر جنت کی بشارت دی گئی ہے، ان کا مطلب بھی یہی ہے، دراصل یہ سب رسول اللہ ﷺ کی دعوت ایمان کو قبول کر لینے اور اسلام کو اپنا دین بنا لینے کے بعد مشہور و معروف عنوانات ہیں، ان شاء اللہ اس کی کچھ مزید تفصیل اگلی حدیثوں کی تشریح میں بھی کی جائے گی۔ اس حدیث سے ضمنی طور پر اور بھی چند سبق ملتے ہیں: ۱۔ اگر کوئی بڑا، حتیٰ کہ اللہ کا نبی و رسول بھی کسی معاملہ میں اپنی رائے ظاہر کرے، اور کسی صاحبِ رائے خادم کو اس میں مضرت کا کوئی پہلو نظر آئے، تو وہ ادب کے ساتھ اپنی رائے اور اپنا مشورہ پیش کرنے سے دریغ نہ کرے، اور اس بڑے کو چاہئے کہ وہ اس پر غور کرے، اور اگر وہی رائے بہتر اور انسب معلومہو، تو اپنی رائے سے رجوع کرنے اور اس کو اختیار کرنے میں ادنیٰ تامل نہ کرے۔ ۲۔ دُعا کا قبول ہونا، اور بالخصوص اس قبولیت کا خرقِ عادت کی شکل میں ظاہر ہونا اللہ کی نشانیوں اور مقبولیت اور تعلق باللہ کی خاص علامتوں میں (۱) سے ہے، جس سے مؤمنین کے انشراح صدر اور اطمینان قلبی میں ترقی ہونا برحق بلکہ نبوت کی میراث ہے (جیسا کہ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ کے کلمہ شہادت پڑھنے سے ظاہر ہے) پس جن لوگوں کو اس طرح کے انعاماتِ الہیہ کے تذکرہ سے بجائے انشراح کے انقباض ہوتا ہے، یا جو اس قسم کے خوارق کو طنز و تضحیک اور استخفاف و استحقار کے لائق سمجھتے ہیں، ان کے دل ایک بڑی بیماری کے بیمار ہیں۔
Top