معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 114
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَلَا قَوْلَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي إِبْرَاهِيمَ: {رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي} وَقَالَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ: {إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَقَالَ: «اللهُمَّ أُمَّتِي أُمَّتِي»، وَبَكَى، فَقَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: «يَا جِبْرِيلُ اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ، وَرَبُّكَ أَعْلَمُ، فَسَلْهُ مَا يُبْكِيكَ؟» فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، فَسَأَلَهُ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا قَالَ، وَهُوَ أَعْلَمُ، فَقَالَ اللهُ: " يَا جِبْرِيلُ، اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ، فَقُلْ: إِنَّا سَنُرْضِيكَ فِي أُمَّتِكَ، وَلَا نَسُوءُكَ " (رواه مسلم)
شفاعت
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن پاک میں حضرت ابراہیمؑ کے متعلق یہ آیت تلاوت فرمائی: "رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي" (میرے پروردگار! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے، یعنی ان کی وجہ سے بہت سے آدمی گمراہ ہوئے، پس جو لوگ میری پیروی کریں وہی میرے ہیں، پس ان کے لیے تو میں تجھ سے عرض کرتا ہوں کہ ان کو تو بخش ہی دے) اور عیسیٰ کا یہ قول بھی تلاوت فرمایا، جو قرآن پاک میں ہے: "إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ" (اے اللہ! اگر میری امت کے ان لوگوں کو عذاب دیں، تو یہ آپ کے بندے ہیں، یعنی آپ کو عذاب و سزا کا پورا حق ہے) یہ دونوں آیتیں تلاوت فرما کر رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو یاد کیا، اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے، اور کہا: "اے میرے اللہ! میری امت، میری امت! اور آپ اس دعا میں روئے، اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل کو فرمایا، تم محمد کے پاس جاؤ۔ اور اگرچہ تمہارا رب سب کچھ خوب جانتا ہے مگر پھر بھی تم جا کر ہماری طرف سے پوچھو، کہ ان کے اس رونے کا کیا سبب ہے۔ پس جبرئیل آپ کے پاس آئے، اور آپ سے پوچھا، آپ نے جبرئیل کو وہ بتلا دیا جو اللہ سے عرض کیا تھا (یعنی یہ کہ اس وقت میرے رونے کا سبب امت کی فکر ہے، جبرئیل نے جا کر اللہ تعالیٰ سے عرض کیا) تو اللہ تعالیٰ نے جبرئیل کو فرمایا، کہ محمد کے پاس جاؤ، اور ان کو ہماری طرف سے کہو، کہ تمہاری امت کے بارہ میں ہم تمہیں راضی اور خوش کر دیں گ اور تمہیں رنجیدہ اور غمگین نہیں کریں گے"۔ (مسلم)

تشریح
حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن مجید کی دو آیتوں کی تلاوت فرمائی، ایک سورہ ابراہیم کی آیت، جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے متعلق ذکر فرمایا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم اور اپنی امت کے بارے میں عرض کیا، کہ "فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي، وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ" (یعنی ان میں سے جن لوگوں نے میری بات مانی وہ تو میرے ہیں (اور میں ان کے لیے آپ سے مغفرت کی درخواست کرتا ہوں) اور جنہوں نے میری نافرمانی کی، تو آپ غفور رحیم ہیں، چاہیں تو ان کو بھی بخش سکتے ہیں)۔ اور دوسری آیت سورہ مائدہ کی، جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ذکر ہے، کہ وہ اپنے گمراہ امتیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے، کہ "إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ" (اگر آپ ان کو عذاب دیں، تو یہ آپ کے بندے ہیں، اور آپ کو عذاب دینے کا پورا حق ہے، اور اگر آپ ان کو بخش دیں تو آپ غالب ہیں (سب کچھ کر سکتے ہیں) اور حکیم ہیں (جو کچھ کریں گے حکمت کے مطابق ہی ہو گا)۔ ان دونوں آیتوں میں اللہ کے دونوں جلیل القدر پیغمبروں نے پورے ادب، اور بڑی احتیاط کے ساتھ اپنی اپنی امتوں کے خطاکار لوگوں کے لیے دے لفظوں میں سفارش کی ہے۔ ان آیتوں کی تلاوت نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی امت کا مسئلہ یاد دلایا، اور آپ نے ہاتھ اٹھا کر اور رو کر بارگاہِ الہی میں اپنی فکر کو عرض کیا، جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطمینان دلایا، کہ آپ کی امت کا مسئلہ آپ کی مرضی اور خوشی کے مطابق ہی طے کر دیا جائے گا اور اس معاملہ کی وجہ سے آپ کو رنجیدہ اور غمگین ہونا نہیں پڑے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ ہر پیغمبر کو اپنی امت کے، بلکہ ہر مقتدا کو اپنے متبعین اور منتسبین کے ساتھ ایک خاص قسم کی شفقت کا تعلق ہوتا ہے جس طرح کہ ہر شخص کو اپنی اولاد کے ساتھ ایک خاص تعلق ہوتا ہے جو دوسرے انسانوں کے ساتھ نہیں ہوتا، اور اس تعلق کی وجہ سے ان کی قدرتی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے عذاسب سے چھٹکارا پائیں، اور اس شفقت اور رأفت میں رسول اللہ ﷺ سب پیغمبروں سے بڑھے ہوئے ہیں اور اس لیے قدرتی طور پر آپ کی یہ بڑی خواہش ہے، جو مختلف موقعوں پر بار بار آپ سے ظاہر ہوئی کہ آپ کی امت دوزخ میں نہ جائے، اور جن کی بدعملی اس درجہ کی ہو، کہ ان کا دوزخ میں ڈالا جانا، اور کچھ عذاب پانا ناگزری ہو ان کو کچھ سزا پانے کے بعد نکال لیا جائے، چنانچہ مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہو چکا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اس خواہش کو پورا فرمائیں گے، اور آپ کی شفاعت سے بہت سے لوگ جہنم سے بچ جائیں گے، اور بہت سے ڈالے جانے کے بعد نکال لئے جائیں گے۔ شفاعت کے سلسلے کی حدیثوں میں صحیح مسلم کی یہ حدیث ہم جیسے خطاکاروں، گنہگاروں کے لیے بڑا سہارا ہے اور اس میں بڑی بشارت ہے، بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ے جبرئیل سے اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام سن کر فرمایا: میں تو جب مطمئن اور خوش ہوں گا جب میرا کوئی امتی بھی دوزخ میں نہیں رہے گا۔ ع بریں مژدہ گرجاں فشانم رواست ف۔۔۔ اللہ تعالیٰ کو بطور خود سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود رونے کا سبب پوچھنے کے لیے حضرت جبرئیل کو رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجنا صرف آپ کے اکرام و اعزاز کے طور پر تھا، کہ اپنے مقربین کے ساتھ بادشاہوں کا یہی طرز ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top