معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 117
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَصُفُّ أَهْلُ النَّارِ فَيَمُرُّ بِهِمُ الرَّجُلُ مِنْ اَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَقُوْلُ الرَّجُلُ مِنْهُمْ يَا فُلَانُ اَمَا تَعْرِفْنِىْ اَنَا الَّذِىْ سَقَيْتُكَ شَرْبَةً وَقَالَ بَعْضُهُمْ اَنَا الَّذِىْ وَهَبْتُ لَكَ وَضُوْءً فَيَشْفَعُ لَهُ فَيُدْخِلُهُ الْجَنَّةَ . (رواه ابن ماجه)
شفاعت
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: آخرت میں صف باندھے کھڑے کیے جائیں گے اہلِ دوزخ (یعنی اہلِ ایمان میں سے کچھ گنہگار لوگ جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے دوزخ میں سزا پانے کے مستحق ہوں گے، وہ آخرت میں کسی موقع پر صف باندھے کھڑے ہوں گے) پس ایک شخص اہلِ جنت میں اس کے پاس سے گذرے گا، تو صف والوں میں سے ایک شخص اس گذرنے والے جنتی کو پکار کر کہے گا اے فلاں! کیا تم مجھے نہیں پہچانتے؟ میں وہ ہوں، کہ ایک دفعہ میں نے تم کو پانی پلایا تھا (یا شربت وغیرہ، پینے کی کوئی اچھی چیز پلائی تھی) اور اسی صف والوں میں سے کوئی اور کہے گا، کہ میں نے تمہیں وضو کے لیے پانی دیا تھا، پس یہ شخص ان لوگوں کے حق میں اللہ تعالیٰ سے سفارش کرے گا اور ان کو جنت میں داخل کرا دے گا۔ (ابن ماجہ)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا، کہ دنیا میں صالحین سے محبت اور قربت کا تعلق اپنی عملی کوتاہیوں کے باوجود بھی ان شاء اللہ بہت کچھ کام آنے والا ہے، بشرطیکہ ایمان نصیب ہو، افسوس! ان چیزوں میں جس طرح بہت سے جاہل عوام سخت غلو اور افراط میں مبتلا ہو کر گمراہ ہوئے ہیں، اسی طرح ہمارے زمانے کے بعض اچھے خاصے پڑھے لکھے سخت تفریط میں مبتلا ہیں۔ جنت اور اس کی نعمتیں! عالمِ آخرت کی جن حقیقتوں پر ایمان لانا ایک مومن کے لیے ضروری ہے اور جن پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص مومن و مسلم نہیں ہو سکتا، ان ہی میں سے جنت و دوزخ بھی ہیں، اور یہی دونوں مقام انسانوں کا آخری اور پھر ابدی ٹھکانا ہیں، قرآن مجید میں بھی جنت اور اس کی نعمتوں کا اور دوزخ اور اس کی تکلیفوں کا ذخر اتنی کثرت سے کیا گیا ہے اور ان دونوں کے متعلق اتنا کچھ بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر اس سلسلے کی سب آیتوں کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو صرف انہی سے اچھی خاصی ایک کتاب تیار ہو جائے۔ اسی طرح کتبِ حدیث میں بھی جنت و دوزخ کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی صدہا حدیثیں محفوظ ہیں جن سے ان دونوں کے متعلق کافی معلومات مل جاتی ہیں، پھر بھی یہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ قرآن مجید میں اور اسی طرح احادیث میں جنت و دوزخ کے متعلق جو کچھ بیان فرمایا گیا ہے اس کی پوری اور اصلی حقیقت کا علم وہان پہنچ کر، اور مشاہدہ کے بعد ہی حاصل ہو سکے گا، جنت تو جنت ہے، اگر کوئی شخص ہماری اس دنیا ہی کے کسی بارونق شہر کے بازاروں کا اور وہاں کے باغوں اورگلزاروں کا ذکر ہمارے سامنے کرے، تو اس کے بیان سے جو تصور ہمارے ذہنوں میں قائم ہوتا ہے، ہمیشہ کا تجربہ ہے کہ وہ اصل کے مقابلہ میں ہمیشہ بہت ناقص ہوتا ہے، بہر حال اس نفل الامری حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے قرآن و حدیث میں جنت یا دوزخ کے بیان کو پڑھنا چاہیے۔ دراصل آیات یا احادیث میں جنت اور دوزخ کا جو ذخر فرمایا گیا ہے، اس کا یہ مقصد ہی نہیں ہے، کہ لوگوں کے سامنے وہاں کا مکمل جغرافیہ اور وہاں کے احوال کا پورا نقشہ آ جائے بلکہ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگوں میں دوزخ اور اس کے عذاب کا خوف پیدا ہو، اور وہ ان برائیوں سے بچیں جو دوزخ میں لے جانے والی ہیں اور جنت اور اس کی بہاروں اور لذتوں کا شوق ابھرے، تا کہ وہ اچھے اعمال اختیار کریں، جو جنت میں پہنچانے والے ہیں، اور وہاں کی نعمتوں کا مستحق بنانے والے ہیں، پس اس سلسلہ کی آیات اور احادیث کا اصلی حق یہی ہے کہ ان کے پڑھنے اور سننے سے شوق اورخوف کی یہ کیفیتیں پیدا ہوں۔
Top