معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 120
عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «غَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ رَوْحَةٌ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَلَوْ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ نِسَاءِ أَهْلِ الجَنَّةِ اطَّلَعَتْ إِلَى الأَرْضِ لَأَضَاءَتْ مَا بَيْنَهُمَا، وَلَمَلَأَتْ مَا بَيْنَهُمَا رِيحًا، وَلَنَصِيفُهَا عَلَى رَأْسِهَا خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا» (رواه البخارى)
شفاعت
حضرت انسؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: راہ خدا میں ایک دف عہ صبح کا نکلنا یا شام کا نکلنا دنیا وما فیہا سے بہتر ہے، اور اگر اہلِ جنت کی بیویوں میں سے کوئی عورت زمین کی طرف جھانکے تو ان دونوں کے درمیان (یعنی جنت سے لے کر زمین تک) روشنی ہی روشنی ہو جائے، اور مہک اور خوشبو سے بھر جائے اور اس کے سر کی صرف اوڑھنی بھی دنیا وما فیہا سے بہتر ہے۔ (بخاری)

تشریح
حدیث کے ابتدائی حصے میں راہِ خدامیں نکلنے کی یعنی خدمتِ دین کے کسی سلسلہ میں سفر کرنے اور چلنے پھرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ ایک دفعہ صبح کا یا شام کا نکلنا بھی دنیا وما فیہا سے بہتر ہے، اور یہاں صبح شام کا ذکر غالباً صرف اس لیے کردیا گیا ہے کہ صبح یا شام ہی کو سفر پر روانہ ہونے کا دستور تھا، ورنہ اگر کوئی شخص مثلاً دن کے درمیانی حصے میں خدمتِ دین کے کسی سلسلے میں جائے، تو یقیناً اس کے اس جانے کی بھی وہی فضیلت ہے پھر حدیث کے دوسرے حصے میں اہلِ جنت کی جنتی بیویوں کے غیر معمولی حسن و جمال اور ان کے لباس کی قدر و قیمت کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور اس موقع پر اس کے ذکر کرنے کا مقصد غالباً اہلِ ایمانکو خدمتِ دین کے سلسلے کے کاموں کے لیے گھر چھوڑ کر نکلنے کی ترغیب دینا، اور یہ بتلانا ہے کہاگر تم اپنے گھروں اور گھر والیوں کوعارضی طور پر چھوڑ کر تھوڑے سے وقت کے لیے بھی راہِ خدامیں نکلو گے تو جنت میں ایسی بیویاں ہمیشہ ہمیشہ تمہاری رفیق اور زندگی کی شریک رہیں گی، جن کے حسن و جمال کا یہ عالم ہے کہ اگر ان میں سے کوئی اس زمین کی طرف ذرا جھانکے تو زمین اور آسمان کے درمیان کی ساری فضا روشن اور معطر ہو جائے، اور جن کا لباس اس قدر قیمتی ہے، کہ صرف سر کی اوڑھنی اس دنیا وما فیہا سے بہتر اور بیش قیمت ہے۔
Top