معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 127
عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ إِلَى القَمَرِ لَيْلَةَ البَدْرِ قَالَ: «إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا القَمَرَ، لاَ تُضَامُونَ فِي رُؤْيَتِهِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لاَ تُغْلَبُوا عَلَى صَلاَةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَصَلاَةٍ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَافْعَلُوا ثُمَّ قَرَأَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ». (رواه البخارى ومسلم)
جنت میں دیدارِ الہٰی
جریر بن عبداللہ بجلی سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ (ایک رات کو) ہم رسول اللہ ﷺ کے پس بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے چاند کی طرف دیکھا، اور یہ چودھویں رات تھی (اور چودھویں کا چاند پوری آب و تاب کے ساتھ، اور بھرپور نکلا ہوا تھا) پھر آپ نے ہم سے مخاطب ہو کر فرمایا، کہ: "یقیناً تم اپنے پروردگار کو اسی طرح دیکھو گے، جیسے کہ اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تمہیں اس کے دیکھنے میں کوئی کشمکش نہیں کرنی پڑے گی، اور کوئی زحمت نہ ہو گی، پس اگر تم یہ کر سکو، کہ طلوع آفتاب سے پہلی نماز، اور غروب آفتاب سے پہلی والی نماز کے مقابلے میں کوئی چیز کبھی تم پر غالب نہ آئے (یعنی کوئی مشغلہ اور کوئی دلچسپی اور آرام طلبی ان نمازوں کے وقت میں تمہیں اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے) تو لازماً ایسا کرو (پھر ان شاء اللہ دیدارِ حق اور نظارہ جمالِ الہٰی کی نعمت ضرور تم کو نصیب ہو گی) اس کے بعد آپ نے یہ آیت پڑھی: "وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا"۔ (اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو (یعنی اس کی تعریف بیان کرنے کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرو) سورج کے نکلنے سے پہلے، اور اس کے ڈوبنے سے پہلے"۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
دنیا میں جب کسی حسین و جمیل چیز کے دیکھنے والے لاکھوں کروڑوں جمع ہو جائیں اور سب اس کے دیکھنے کے انتہائی درجہ میں مشتاق ہوں، تو ایسے موقعوں پر عموماً بڑی کشمکش اور بڑی زحمت ہوتی ہے، اور اس چیز کو اچھی طرح دیکھنا بھی مشکل ہوتا ہے، لیکن چاند کا معاملہ یہ ہے کہ اس کو مشرق و مغرب کے آدمی بغیر کسی کشمکش اور زحمت کے، اور پورے اطمینان سے بیک وقت دیکھ سکتے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کی مثال سے سمجھایا، کہ جنت میں حق تعالیٰ کا دیدار اسی طرح بیک وقت اس کے بے شمار خوش نصیب بندوں کو نصیب ہو گا، اور کسی کو کشمکش اور زحمت سے سابقہ نہیں پڑے گا، سب کی آنکھیں بڑے سکون و اطمینا سے وہاں جمالِ حق کے نظارہ کی لذت حاصل کریں گی۔ اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنْهُمْ۔ آخر میں رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے عمل کی طرف بھی توجہ دلائی جو بندہ کو اس نعمت (دیدارِ حق) کا مستحق بنانے میں خاص اثر رکھتا ہے، یعنی فکر و عصر کی نمازوں کا خصوصیت سے ایسا اہتمام، کہ کوئی مشغولیت اور کوئی دلچسپی ان نمازوں کے وقت میں اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے، اگرچہ فرض تو پانچ نمازیں ہیں، لیکن نصوص کتاب و سنت ہی سے مفہوم ہوتا ہے کہ ان دو نمازوں کو خاص اہمیت اور فضیلت حاصل ہے،رسول اللہ ﷺ نے قرآنی آیت: "وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا" پڑھ کر، ان دو نمازوں کی اسی خصوصیت اور فضیلت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
Top