معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 129
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «نَارُكُمْ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ»، قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ كَانَتْ لَكَافِيَةً قَالَ: «فُضِّلَتْ عَلَيْهِنَّ بِتِسْعَةٍ وَسِتِّينَ جُزْءًا كُلُّهُنَّ مِثْلُ حَرِّهَا» (رواه البخارى ومسلم واللفظ البخارى)
دوزخ اور اس کا عذاب
ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: تمہاری اس دنیا کی آگ دوزخ کی آگ سے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! یہی (دنیا کی آگ) کافی تھی؟ آپ نے فرمایا: "دوزخ کی آگ دنیا کی آگ کے مقابلہ میں انہتر (۶۹) درجہ بڑھا دی گئی ہے، اور ہر درجہ کی حرارت آتش دنیا کی حرارت کے برابر ہے "۔ (صحیح بخاری و مسلم)

تشریح
جس طرح جنت کے متعلق قرآن پاک کی آیات اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اعلیٰ درجے کی ایسی لذتیں اور راحتیں ہیں، کہ دنیا کی بڑی لذتوں اور راحتوں کو ان سے کوئی نسبت نہیں، اور پھر وہ سب ابدی اور غیر فانی ہیں، اسی طرح دوزخ کے متعلق قرآن و حدیث میں جو کچھ بتلایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں ایسی تکلیفیں اور ایسے دکھ ہیں کہ دنیا کے بڑے سے بڑے دکھوں اور بڑی سے بڑی تکلیفوں کو ان سے کوئی نسبت نہیں۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے الفاظ سے جنت کے عیش و راحت اور دوزخ کے دُکھ اور عذاب کا جو تصور اور جو نقشہ ہمارے ذہنوں میں قائم ہوتا ہے وہ بھی اصل حقیقت سے بہت ناقص اور کمتر ہے، اور یہ اس لیے کہ ہماری زبان کے سارے الفاظ ہماری اس دنیا کی چیزوں کے لیے وضع کئے گئے ہیں، مثلاً سیب یا انگور کے لفظوں سے ہمارا ذہن بس اسی قسم کے سیبوں یا انگوروں کی طرف جا سکتا ہے جن کو ہم نے دیکھا اور چکھا ہے ہم جنت کے ان سیبوں اور انگوروں کی اصل حقیقت اور کیفیت کا تصور کیسے کر سکتے ہیں۔ جو اپنی خوبیوں میں یہاں کے سیبوں اور انگوروں سے ہزاروں درجہ زیادہ ترقی یافتہ ہوں گے، اور جن کا کوئی نمونہ ہم نے یہاں نہیں دیکھا۔ اسی طرح مثلاً سانپ اور بچھو کے لفظ سے ہمارا ذہن اسی قسم کے سانپوں اور بچھوؤں کی طرف جا سکتا ہے جو ہم نے اس دنیا میں دیکھے ہیں، دوزخ کے ان سانپوں اور بچھوؤں کا پورا نقشہ ہمارے ذہنوں میں کیسے آسکتا ہے جو اپنی جسامت اور خوف ناکی اور زہریلے پن میں یہاں کے ان سانپوں اور بچھوؤں سے ہزاروں درجہ بڑھے ہوئے ہوں گے، اور کبھی ہم نے ان کی تصویر تک نہیں دیکھی ہے۔ بہر حال قرآن و حدیث کے الفاظ سے بھی جنت و دوزخ کی چیزوں کی اصل کیفیت، اور اصل حقیقت کو ہم یہاں پورے طور پر نہیں سمجھ سکتے، بس وہاں پہنچ کر ہی معلوم ہو گا، کہ جنت کے عیش و راحت کے بارے میں جو کچھ ہم نے جانا اور سمجھا تھا، ہمارا وہ علم بڑا ہی ناقص تھا، اور جنت میں تو اس سے ہزاروں درجہ عیش و راحت ہے، اور دوزخ کے دکھ اور عذاب کے بارے میں جو کچھ ہم نے سمجھا تھا اصل حقیقت کے مقابلے میں وہ بھی بہت ہی ناقص تھا، اور یہاں تو ہمار ے سمجھے ہوئے سے ہزاروں گنا زیادہ دکھ اور عذاب ہے۔ اور جیسا کہ اس سے پہلے جنت کے بیان میں بتلایا جا چکا ہے، دوزخ اور جنت کے متعلق جو کچھ قرآن و حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے اس کا یہ مقصد ہے ہی نہیں، کہ جو کچھ وہاں پر پیش آنے والا ہے، اس کو ہم یہاں پوری طرح سمجھ لیں اور جان لیں، اور وہاں کے حالات کا صحیح نقشہ ہمارے سامنے آ جائے، بلکہ اس بیان کا اصل مقصد تبشیر اور انزار ہے، یعنی جنت کا شوق اور دوزخ کا خوف دلا کر اللہ کی رضا والی اور دوزخ سے بچا کر جنت میں پہنچانے والی زندگی پر اللہ کے بندوں کو آمادہ کرنا، اور اس مقصد کے لیے جنت و دوزخ سے متعلق قرآن و حدیث کا یہ بیان بالکل کافی ہے، پس اس سلسلے کی آیات و احادیث پر غور کرتے وقت ہمیں اسی خاص مقصد کو سامنے رکھنا چاہے۔ تشریح۔۔۔ اس دنیا کی آگ کی قسموں میں بھی درجہ حرارت میں بعض بعض سے بہت بڑھی ہوئی ہیں، مثلاً لکڑی کی آگ میں گھاس پھونس کی آگ سے زیادہ گرمی ہوتی ہے اور مثلاً پتھر کے کوئلے کی آگ میں لکڑی کی آگ کے مقابلے میں بہت زیادہ حرارت ہوتی ہے اور بعض بموں سے جو آگ پیدا ہوتی ہے، وہ درجہ حرارت میں ان سے بدرجہا بڑھی ہوئی ہوتی ہے اور اب تو آلات سے معلوم کرنا بھی آسان ہو گیا ہے کہ ایک آگ دوسری آگ کے مقابلہ میں کتنے درجہ کم یا زیادہ گرم ہے، پس اب حدیث کے اس مضمون کا سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہا، کہ "دوزخ کی آگ دنیا کی آگ کے مقابلہ میں سر درجہ زیادہ حرارت اپنے اندر رکھتی ہے"۔ اور جیسا کہ پہلے بھی کئی بار شرح حدیث کے اسی سلسلہ میں بتلایا گیا ہے کہ عربی زبان میں ایسے موقعوں پر ستر کا عدد کسی چیز کی صرف زیادتی اور کثرت ظاہر کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے، پس ہو سکتا ہے، کہ اس حدیث میں بھی یہ عدد اسی محاورے کے مطابق استعمال کیا گیا ہو، اس صورت میں حدیث کا حاصل یہ ہو گا کہ دوزخ کی آگ اپنی گرمی، اور جلانے کی صفت میں دنیا کی آگ سے بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔ واللہ اعلم۔ آگے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب دوزخ کی آگ کا یہ حال بیان فرمایا تو کسی صحابی نے عرض کیا، کہ یا رسول اللہ! دنیا کی آگ کی حرارت ہی کافی تھی، اس پر آپ نے اور زیادہ واضح لفظوں میں پھر پہلے ہی مضمون کو دہرایا، اس کے علاوہ کوئی اور جواب نہیں دیا، غالباً اس طریق جواب سے آپ نے اس پر متنبہ فرمایا، کہ ہمیں اللہ کے افعال اور اس کے فیصلوں کے بارے میں ایسے سوالات نہیں کرنا چاہئیں، جو کچھ اس نے کیا ہے، اور جو کچھ وہ کرے گا، وہی ٹھیک ہے۔
Top