معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 137
عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ: «أَنْذَرْتُكُمُ النَّارَ، أَنْذَرْتُكُمُ النَّارَ، » فَمَا زَالَ يَقُولُهَا حَتَّى لَوْ قَامَ فِي مَقَامِي هَذَا، سَمِعَهُ أَهْلُ السُّوقِ، وَحَتَّى سَقَطَتْ خَمِيصَةٌ كَانَتْ عَلَيْهِ عِنْدَ رِجْلَيْهِ. (رواه الدارمى)
دوزخ اور اس کا عذاب
نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ (اپنے ایک خطاب میں) فرماتے تھے: میں نے تمہیں آتش دوزخ سے خبردار کردیا ہے، میں نے تمہیں دوزخ کے عذاب سے آگاہ کر دیا ہے۔ آپ یہی کلمہ بار بار فرماتے تھے (آگے حدیث کے راوی نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ آپ یہ بات اتنی بلند آواز سے فرماتے) کہ اگر آپ اس جگہ ہوتے جہاں پر اس وقت میں ہوں (اور یہاں سے فرماتے) تو بازار والے بھی آپ کے اس ارشاد کو سن لیتے، اور (اس وقت آپ پر خود فراموشی کی ایک خاص کیفیت طاری تھی) یہاں تک کہ آپ کی کمبلی جو اس وقت آپ اوڑھے ہوئے تھے، آپ کے قدموں کے پاس آ گری۔ (دارمی)

تشریح
بعض خطابات کے وقت حضور ﷺ کی کوئی خاص کیفیت ہوتی تھی، صحابہ کرامؓ اس کی کوشش فرماتے تھے کہ ان خطابات کی روایت کے وقت اس خاص کیفیت کو بھی کسی طرح نقل کر دیں، چنانچہ حضرت نعماب بن بشیر نے اس حدیث کے بیان میں جو اتنی تفصیل کی تو اس سے ان کا مقصد یہی تھا۔ کہ لوگوں کو یہ بات بتلا دیں کہ اس خطاب کے وقت آپ کی یہ خاص حالت تھی، اور دوسروں کو دوزخ سے ڈراتے ہوئے آپ خود اتنے متاثر ہوتے تھے۔
Top