معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 139
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الْجَنَّةَ قَالَ لِجِبْرِيلَ: اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ وَعِزَّتِكَ لَا يَسْمَعُ بِهَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَهَا، ثُمَّ حَفَّهَا بِالْمَكَارِهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا جِبْرِيلُ اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: أَيْ رَبِّ وَعِزَّتِكَ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ لَا يَدْخُلَهَا أَحَدٌ " قَالَ: " فَلَمَّا خَلَقَ اللَّهُ النَّارَ قَالَ: يَا جِبْرِيلُ اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: أَيْ رَبِّ وَعِزَّتِكَ لَا يَسْمَعُ بِهَا أَحَدٌ فَيَدْخُلُهَا، فَحَفَّهَا بِالشَّهَوَاتِ ثُمَّ قَالَ: يَا جِبْرِيلُ اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا، قَالَ فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: أَيْ رَبِّ وَعِزَّتِكَ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ لَا يَبْقَى أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَهَا " (رواه الترمذى وابوداؤد والنسائى)
جنت اور دوزخ کے بارے میں ایک اہم انتباہ
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ: جب اللہ نے جنت کو بنایا، تو اپنے مقرب فرشتے جبرئیل سے فرمایا کہ تم جاؤ اور اس کو دیکھو (کہ ہم نے اس کو کیسا بنایا ہے، اور اس میں کیسی کیسی نعمتیں پیدا کیں ہیں) چنانچہ وہ گئے، اور انہوں نے جا کر جنت کو اوعر راحت و لذت کے ان سامانوں کو دیکھا، جو اللہ تعالیٰ نے اہلِ جنت کے لیے اس میں تیار کئے ہیں، اور پھر حق تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، کہ خداوندا! آپ کی عزت و عظمت کی قسم (آپ نے جنت کو ایسا حسین بنایا ہے اور اس میں راحت و لذت کے ایسے ایسے سامان پیدا کئے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ) جو کوئی بھی اس کا حال سن پائے گا، وہ اس میں ضرور پہنچے گا (یعنی اس کا حال سن کر وہ دل و جان سے اس کا طالب بن جائے گا، اور پھر اس میں پہنچنے کے لئے جو اچھے اعمال کرنے چاہئیں وہ پویر مستعدی کے ساتھ وہی اعمال کرے گا، اور جن برے کاموں سے بچنا چاہئے ان سے پوری طرح بچے گا اور اس طرح اس میں پہنچ ہی جائے گا) پھر اللہ تعالیٰ نے اس جنت کو سختیوں اور مشقتوں سے گھیر دیا (یعنی جنت کے گرد شرعی احکام کی پابندی کا باڑہ لگا دیا، جو طبیعت اور نفس کے لئے بہت شاق اور گراں ہے، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں پہنچنے کے لئے احکام کی اطاعت کی گھاٹی کو عبور کرنے کی شرط لگا دی، جس میں طبیعتوں کو اور نفسوں کو بڑی سختی اور دشواری محسوس ہوتی ہے) اور پھر جبرئیل سے فرمایا، کہ اب پھر جاؤ، اور پھر اس جنت کو (اور اس کے گردا گرد لگائی ہوئی باڑہ کو) دیکھو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرماتے ہیں کہ وہ پھر گئے، اور جا کر پھر جنت کو دیکھا اور اس مرتبہ آ کر فرمایا: خداوندا قسم آپ کی عزت و عظمت کی، اب تو مجھے یہ ڈر ہے کہ اس میں کوئی بھی نہ جا سکے گا (مطلب یہ ہے کہ جنت میں جانے کے لیے شرعی احکام کی پابندی کی گھاٹی کو عبور کرنے کی جو شرط آپ کی طرف سے لگائی گئی ہے، وہ نفس اور نفسانی خواہشات رکھنے والے انسان کے لئے اتنی شاق، اور اس قدر دشوار ہے کہ اس کو کوئی بھی پورا نہ کر سکے گا، اس لئے مجھے ڈر ہے کہ اب اس جنت کو شاید کوئی بھی حاصل نہ کر سکے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ پھر اللہ تعالیٰ نے جب دوزخ کو بنایا تو پھر جبرئیل سے فرمایا کہ: جاؤ اور ہماری بنائی ہوئی دوزخ کو (اور اس میں انواع و اقسام کے عذاب کے جو سامان پیدا کئے ہیں، ان کو) دیکھو، چنانچہ وہ گئے اور جا کر اس کو دیکھا، اور آ کر عرض کیا، خداوندا! آپ کی عزت کی قسم (آپ نے دوزخ کو تو ایسا بنایا ہے، کہ میرا خیال ہے کہ) جو کوئی بھی اس کا حال سنے گا وہ کبھی بھی اس میں نہ جائے گا (یعنی ایسے کاموں کے پاس نہیں جائے گا جو آدمی کو دوزخ میں پہنچانے والے ہیں) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دوزخ کو شہوات اور نفسانی لذات سے گھیر دیا (مطلب یہ ہے کہ نفسانی خواہشات والے وہ اعمال جن میں انسان کی طبیعتاور نفس کے لئے بڑی کشش ہے، جہنم کے گرد اُن کی باڑہ لگا دی، اور اس طرح جہنم کی طرف جانے کے لئے بڑی کشش پیدا ہو گئی) اور پھر اللہ تعالیٰ نے جبرئیل سے فرمایا: اب پھر جا کر اس دوزخ کو دیکھو۔ رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں کہ جبرئیل پھر گئے اور جا کر اس کو اور اس کے گرد شہوات و لذات کی جو باڑہ لگائی گئی تھی، اس کو) دیکھا اور آ کر عرض کیا: خدا وندا! آپ کی عزت و جلال کی قسم! اب تو مجھے یہ ڈر ہے کہ سب انسان اسی میں نہ پہنچ جائیں (مطلب یہ ہے کہ ج شہوات و لذات سے آپ نے جہنم کو گھیر دیا ہے ان میں نفس رکھنے والے انسانوں کے لئے اتنی زبردست کشش ہے کہ ان سے رکنا بہت مشکل ہے اور اس لئے خطرہ ہے کہ بے چاری ساری اولادِ آدم نفسانی لذات و شہوات کی کشش سے مغلوب ہو کر دوزخ ہی میں نہ پہنچ جائے)۔ (ترمذی، ابو داؤد، نسائی)

تشریح
حدیث کا اصل مقصد اور اس میں ہمارے لئے خاص سبق یہ ہے کہ نفسانی خواہشات جو بظاہر بڑی لذیذ اور بڑی مرغوب ہیں۔ ہم جان لیں کہ ان کا انجام دوزخ کا دردناک عذاب ہے، جس کا ایک لمحہ زندگی بھر کے عیشوں کو بھلادے گا، اور احکامِ الہٰی کی پابندی والی زندگی جس میں ہمارے نفسوں کو گرانی اور سختی محسوس ہوتی ہے اس کا انجام اور منتہی جنت ہے جس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عیش و راحت کے وہ سامان ہیں جن کی دنیا کے کسی انسان کو ہوا بھی نہیں لگی ہے۔
Top