معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 13
عَنْ أَنَس أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمُعاذٌ رَدِيفُهُ عَلَى الرَّحْلِ، قَالَ: «يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ»، قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «يَا مُعَاذُ»، قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ثَلاَثًا، قَالَ: «مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ [ص:38] مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ»، قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَفَلاَ أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا؟ قَالَ: «إِذًا يَتَّكِلُوا» وَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا (رواه البخارى ومسلم)
سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے
حضرت انس بن مالکؓ راوی ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ حضرت معاذؓ کو جب کہ وہ حضور کے ساتھ ایک ہی کجاوے پر سوار تھے، پکارا اور فرمایا: "یا معاذ!" انہوں نے عرض کیا: "لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک" حضور نے پکارا: "یا معاذ!" انہوں نے عرض کیا: "لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک" حضور نے پکارا: "یا معاذ!" انہوں نے عرض کیا: "لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک"۔ تین دفعہ ایسا ہوا، پھر حضور نے (اس آخری دفعہ میں فرمایا) "جو کوئی سچے دل سے شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد اس کے رسول ہیں، تو اللہ نے دوزخ پر ایسے شخص کو حرام کر دیا ہے"۔ حضرت معاذؓ نے (یہ خوش خبری سن کر) عرض کیا: "کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ کر دوں، تا کہ وہ سب خوش ہو جائیں؟"۔ حضور نے فرمایا: "پھر وہ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے"۔ پھر حضرت معاذؓ نے کتمانِ علم کے گناہ کے خوف سے اپنے آخری وقت میں یہ حدیث لوگوں سے بیان کی۔

تشریح
ان دونوں روایتوں (۱۲، ۱۳) کے ابتدائی تمہیدی حصے کی مطابقت و یکسانیت سے ظاہر ہے کہ ان دونوں کا تعلق ایک ہی واقعہ سے ہے، اور فرق صرف یہ ہے کہ پہلی روایت میں دعوتِ اسلام قبول کرنے کے لئے اللہ کی عبادت کرنے اور شرک سے بچنے کا عنوان استعمال کیا گیا ہے، اور دوسری میں اسی حقیقت کو توحید و رسالت کی شہادت کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کی مزید تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اسی بشارت کی تیسری روایت میں حضرت معاذؓ نے توحید کے ساتھ نماز اور روزہ کا بھی ذکر کیا ہے، یہ روایت "مشکوٰۃ" میں "مسند احمد" کے حوالہ سے نقل کی گئی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: مَنْ لَقِيَ اللهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا يُصَلِّي الْخَمْسَ، وَيَصُومُ رَمَضَانَ غُفِرَ لَهُ " قُلْتُ: أَفَلَا أُبَشِّرُهُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: " دَعْهُمْ يَعْمَلُوا جو شخص اللہ کے سامنے اس حال میں جائے گا، کہ شرک سے اُس کا دامن پاک ہو، اور وہ پانچوں نمازیں پڑھتا ہو، اور روزے رکھتا ہو تو وہ بخش ہی دیا جائے گا (معاذ کہتے ہیں) میں نے عرض کیا: حضور ﷺ! اجازت ہو تو میں سب کو یہ بشارت سُنا دوں؟ آپ نے فرمایا: "جانے دو، انہیں عمل کرنے دو!" ان تینوں روایتوں کا عنوان اگرچہ مختلف ہے، اور ظاہری الفاظ میں اجمالی و تفصیل کا کسی قدر فرق ہے۔ لیکن درحقیقت ہر روایت کا مطلب یہ ہی ہے کہ جو کوئی دعوتِ ایمان و اسلام کو قبول کر لے گا (جس کے بنیادی اصول و احکام، شرک سے بچنا، توحید و رسالت کی شہادت دینا، اور نماز پڑھنا، روزہ رکھنا) تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی نجات کا حتمی وعدہ ہے۔ پس جو لوگ اس قسم کی روایات سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں، کہ توحید و رسالت کی شہادت ادا کرنے اور شرک سے بچنے کے بعد آدمی خواہ کیسا ہی بدعقیدہ اور بد عمل کیوں نہ ہو، بہر حال وہ اللہ کے عذاب سے مامون و محفوظ ہی رہے گا، اور دوزخ کی آگ اس کو چھو ہی نہ سکے گی، وہ ان بشارتی حدیثوں کا صحیح مفہوم اور مدعا سمجھنے سے محروم ہیں، نیز دوسرے ابواب کی جو سینکڑوں حدیثیں (بلکہ قرآن کی آیتیں بھی) ان کی اس خام خیالی کے صریح خلاف ہیں، وہ ان سے منحرف ہیں۔ (اعاذنا الله من ذالك)
Top