معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 18
عَنْ أَبِىْ هُرَيْرَةَ، قَالَ: كُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَعَنَا أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ، فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِنَا، فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا، وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا، وَفَزِعْنَا، فَقُمْنَا، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ، فَخَرَجْتُ أَبْتَغِي رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ، فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا؟ فَلَمْ أَجِدْ، فَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ حَائِطٍ مِنْ بِئْرٍ خَارِجَةٍ - وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ - فَاحْتَفَزْتُ، فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَبُو هُرَيْرَةَ» فَقُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: «مَا شَأْنُكَ؟» قُلْتُ: كُنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا، فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا، فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا، فَفَزِعْنَا، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ، فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ، فَاحْتَفَزْتُ كَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ، وَهَؤُلَاءِ النَّاسُ وَرَائِي، فَقَالَ: «يَا أَبَا هُرَيْرَةَ» وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ، قَالَ: «اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ، فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ، فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ»، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرُ، فَقَالَ: مَا هَاتَانِ النَّعْلَانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ فَقُلْتُ: هَاتَانِ نَعْلَا رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَعَثَنِي بِهِمَا مَنْ لَقِيتُ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ، بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لِاسْتِي، فَقَالَ: ارْجِعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَجْهَشْتُ بُكَاءً، وَرَكِبَنِي عُمَرُ، فَإِذَا هُوَ عَلَى أَثَرِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا لَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟» قُلْتُ: لَقِيتُ عُمَرَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ، فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لِاسْتِي، قَالَ: ارْجِعْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عُمَرُ، مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ؟» قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، بِأَبِي أَنْتَ، وَأُمِّي، أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ، مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا، فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَخَلِّهِمْ» (رواه مسلم)
سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے
حضرت ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رسول اللہ ﷺ (کی خدمت میں حاضر تھے، اور) آپ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے، اور حضرت ابو بکرؓ و عمرؓ بھی ہمارے ساتھ ہی اس مجلس میں تھے، کہ آنحضرتﷺ ہمارے درمیان سے اٹھے (اور کسی طرف کو نکل گئے) اور پھر آپ کی واپسی میں بہت دیر ہو گئی، تو ہمیں ڈر ہوا، کہیں ہم سے علیحدہ آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے، (یعنی ہماری عدم موجودگی میں کسی دشمن وغیرہ سے آپ کو کوئی ایذا نہ پہنچ جائے)۔ پس اس خیال سے ہمیں سخت گھبراہٹ اور فکر لاحق ہوئی، اور ہم لوگ (آپ کی جستجو میں) نکل کھڑے ہوئے، اور سب سے پہلے میں ہی گھبرا کے حضور کی تلاش میں نکلا، یہاں تک کہ انصار کے خاندان بھی النجار کے ایک باغ پر پہنچ گیا، جو چہار دیواری سے گھرا ہوا تھا،اور میں نے اس کے چاروں طرف چکر لگایا، کہ اندر جانے کے لئے مجھے راستہ مل جائے، لیکن نہیں ملا، پھر مجھے پانی کی ایک گول (چھوٹی سی نہری) نظر پڑی، جو باہر کے ایک کنوئیں سے باغ کے اندر جاتی تھی (ابو ہریرہؓ کہتے ہیں) میں سمٹ اور سکڑ کر اس میں سے باغ کے اندر گھس گیا، اور رسول اللہ ﷺ کے پاس جا پہنچا، حضور نے فرمایا: "ابو ہریرہ!" میں نے عرض کیا "ہاں! یا رسول اللہ میں ہی ہوں" آپ نے فرمایا "تم کیسے آئے؟" میں نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! آپ ہمارے درمیان تشریف رکھتے تھے، پھر وہاں سے اُٹھ کر چلے آئے، اور جب دیر تک آپ کی واپسی نہیں ہوئی تو ہمیں خطرہ ہوا، کہ مبادا ہم سے علیحدہ آپ کو کوئی ایذا پہنچائی جائے، اسی خطرے سے گھبرا کے ہم سب چل پڑے، اور سب سے پہلے گھبرا کے میں ہی نکلا تھا، یہاں تک کہ میں اس باغ تک پہنچا، اور (جب مجھے کوئی دراوزہ نہیں ملا، تو) لومڑی کی طرح سمٹ سکڑ کے، میں (اس گول میں سے کسی طرح) گھس آیا ہوں اور دوسرے لوگ نھی میرے پیچھے آ رہے ہیں"۔ پھر حضور ﷺ نے اپنے نعلین مبارک مجھے عطا فرمائے اور ارشاد فرمایا کہ "میرے یہ جوتے لے کر جاؤ، اور اس باغ سے نکل کے جو آدمی بھی تمہیں ایسا ملے، جو دل کے پورے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کی شہادت دیتا ہو، اس کو جنت کی خوشخبری سنا دو"۔ (ابو ہریرہؓ کہتے ہیں، میں وہاں سے چلا) تو سب سے پہلے میری ملاقات حضرت عمرؓ سے ہوئی، انہوں نے مجھ سے پوچھا: "ابو ہریرہؓ! تمہارے ہاتھ میں یہ دو جوتیاں کیسی ہیں؟"۔ میں نے کہا: "یہ حضور (ﷺ) کے نعلین مبارک ہیں، حضور ﷺ نے مجھے یہ دے کر بھیجا ہے، کہ جو کوئی بھی دل سے "لا الہ الا اللہ" کی شہادت دینے والا مجھے ملے، میں اس کو جنت کی خوشخبری سنا دوں"۔ (ابو ہریرہؓ کہتے ہیں، کہ) پس عمرؓ نے میرے سینے پر ایک ہاتھ مارا جس میں اپنی سرینوں کے بل پیچھے کو گر پڑا، اور مجھ سے انہوں نے کہا: "پیچھے کو لوٹو"۔میں روتا ہوا حضور ﷺ کے پاس واپس آیا، اور عمرؓ بھی میرے پیچھے پیچھے آئے، رسول اللہ ﷺ نے (مجھے اس حالت میں دیکھ کر) پوچھا: "ابو ہریرہ تمہیں کیا ہوا؟" میں نے عرض کیا کہ: عمرؓ مجھے ملے تھے، حضور ﷺ نے مجھے جو پیغام دے کر بھیجا تھا، میں نے وہ انہیں بتلایا، تو انہوں نے میرے سینے پر ایک ایسی ضرب لگائی جس سے میں اپنی سرینوں کے بل گر پڑا، اور مجھ سے کہا، کہ پیچھے کو لوٹو" رسول اللہ ﷺ نے عمرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: "عمر! تم نے ایسا کیو ں کیا؟" انہوں نے عرض کیا: حضور ﷺ پر میرے ماں باپ قربان ہوں! کیا آپ نے ابو ہریرہؓ کو اپنے نعلین مبارک دے کر اس لئے بھیجا تھا، کہ جو کوئی بھی دل کے یقین کے ساتھ "لا الہ الا اللہ" کی شہادت دینے والا ان کو ملے، وہ اس کو جنت کی بشارت دے دیں؟" حضور ﷺ نے فرمایا: "ہاں! میں نے ہی یہ کہہ کر بھیجا تھا"۔ عمرؓ نے عرض کیا: "حضور! ایسا نہ کیجئے، مجھے خطرہ ہے کہ کہیں لوگ بس اس شہادت ہی پر بھروسہ کر کے (سعی و عمل سے بے پرواہ ہو کے) نہ بیٹھ جائیں، لہذا انہیں اسی طرح عمل کرنے دیجئے۔" حضور ﷺ نے فرمایا: "تو جانے دو!"۔

تشریح
اس حدیث میں چند چیزیں وضاحت طلب ہیں: ۱۔ رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر حضرت ابو ہریرہؓ کو اپنی نعلین مبارک کیوں عطا فرمائیں؟ شارحین نے اس کی توجیہ میں اگرچہ کئی باتیں کہی ہیں، لیکن ان سب میں زیادہ قرین قیاس یہ وجہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ کو آپ نے جس بشارتِ عظمیٰ کے اعلان کے لئے بھیجا تھا، اس کی غیر معمولی اہمیت کی وجہ سے آپ نے اپنی کوئی خاص نشانی بھی اُن کے ساتھ کر دینا مناسب سمجھا اور اس وقت آپ کے پاس ایسی چیز جو اس مقصد کے لیے آپ ان کو دے سکتے تھے، یہ نعلین مبارک ہی تھیں، اس لئے وہی آپ نے اُن کو عطا فرما دیں۔ واللہ اعلم۔ ۲۔ حضرت عمرؓ نے اس واقعہ میں حضرت ابو ہریرہؓ کے ساتھ جو سختی کا معاملہ فرمایا، اس کی صحیح نوعیت کو سمجھنے کے لئے حضرت عمرؓ کی اُس امتیازی حیثیت کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے، جو صحابہ کرامؓ کی جماعت میں اُن کو حاصل تھی، یعنی وہ (اور حضرت ابو بکرؓ بھی) حضور (ﷺ) کے خاص شریک کار، محرمِ راز، مشیرِ خصوصی، اور گویا آپ کے وزیر نائب تھے اورع صحابہ کرامؓ عام طور سے اُن کے اس امتیازی مقام کو پہچانتے تھے اورع جس طرح ہر جماعت اور ہر خاندان کا بڑا، اپنے چھوٹوں کو تنبیہ اور سرزنش کا حق رکھتا ہے، اسی طرح حضرت عمرؓ بھی یہ حق رکھتے تھے اور بسا اوقات حسبِ ضرورت اس حق کو آپ استعمال بھی فرماتے تھے، اورع واقعہ یہ ہے کہ چھوٹوں کی اصلاح و تربیت کے لیے بڑوں کے واسطے اس حق کا ماننا ضروری بھی ہے، پس حضرت عمرؓ نے اس واقعہ میں حضرت ابو رہریرہؓ کے ساتھ جو تشدد کیا، وہ درحقیقت اسی قبیل سے ہے، اور معلوم ایسا ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ابتداءً ان سے واپس ہونے کو کہا ہو گا، لیکن وہ چونکہ تمام اہلِ ایمان کے لئے ایک بشارتِ عظمیٰ کا پروانہ لے کر آ رہے تھے، اور اُن کے نزدیک یہ ایک بڑی سعادت تھی جو انہیں حاصل ہو رہی تھی، اس لئے انہوں نے واپس ہونے سے انکار کیا ہو گا، اور بالآخر حضرت عمرؓ نے ان کو واپس لوٹانے کے لئے اس جبر و تشدد سے کام لیا ہو گا، کیوں کہ ان کو مقامِ نبوت اور شئونِ نبوت کی پوری شناسائی کی وجہ سے اس کا کامل یقین تھا، کہ اس بشارتِ عامہ کا مضر پہلو جب حضور ﷺ کے سامنے آئے گا، تو آپ بھی اس کو خلافِ مصلحت ہی سمجھیں گے، اور ابو ہریرہؓ کو اس کی عام اشاعت سے منع فرما دیں گے، چناں چہ ایسا ہی ہوا۔ یہاں یہ بھی ملحوظ رہنا چاہئے، کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذؓ کو بھی ایسی ہی بشارت سنائی تھی (وہ حدیث اوپر گزر چکی ہے) اس وقت حضرت معاذؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت مانگی تھی، کہ وہ سب مسلمانوں کو یہ خوشخبری سنا دیں، تو حضور نے اجازت نہیں دی تھی، اور اجازت نہ دینے کی وجہ یہی بیان فرمائی تھی کہ لوگ اسی پر بھروسہ کر کے دینی ترقیوں سے رہ جائیں گے۔ ۳۔ اس حدیث میں بھی صرف "لا الہ الا اللہ" کی شہادت پر جنت کی خوشخبری دی گئی ہے، سو اس کی عام توجیہ تو وہی ہے، جو مندرجہ بالا احادیث کے ذیل میں ذکر کی جا چکی ہے۔ ما سوا اُسکے، اس حدیث کے الفاظ میں اس احتمال کی بھی کافی گنجائش ہے، کہ حضور ﷺ کا مطلب اس ارشاد سے صرف یہ ہو کہ جو کوئی "لا الہ الا اللہ" کی شہادت دے، یعنی صدق دل سے دینِ توحید (اسلام) پر ایمان لائے، اس کو خوشخبری دے دی جائے کہ وہ ضرور جنت میں جائے گا، اگرچہ گناہوں کی سزا پزنے کے بعد ہی جائے، اس صورت میں کوئی اشکال نہیں رہتا۔ اس کے سوا ایک خاص نکتہ یہاں یہ بھی قابلِ ذکر ہے، کہ مقربین بارگاہِ قدس پر بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے بے پناہ قہر و جلال اور شانِ غضب و انتقام کا جب خاص انکشاف ہوتا ہے، تو اُن پر ہیبت اور خوف کا غلبہ ہو جاتا ہے، اور اُس وقت کا ادراک و احساس یہ ہوتا ہے کہ شاید کسی بھی نافرمان کی نجات نہ ہو سکے گی، اور اُس خاص حال میں اُن کے ارشادات اِس طرح کے ہوتے ہیں، کہ جو یہ گناہ کرے گا جنت میں نہیں جا سکے گا، جو وہ گناہ کرے گا، جنت کی ہوا بھی نہیں پا سکے گا، وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اور اسی طرح جب دوسرے بعض اوقات میں اُن پر اللہ تعالیٰ کی شان رحمت اور اس کے بے حساب اور بے اندازہ فضل و کرم کا انکشاف ہوتا ہے، تو اُن پر رجا اور امیدِ رحمت کا غلبہ ہو جاتا ہے، اور اُس عالم میں اُن کا ادراک و احساس یہ ہوتا ہے کہ جس میں کچھ بھی ذرہ خیر ہو گا وہ بخشا ہی جائے گا، اور ایسے ہی احوال میں اُن حضرات کی زبانوں سے اس طرح کی عام بشارتیں نکلتی ہیں۔۔۔ اسی نکتے کو عارف شیرازیؒ نے اس طرح ادا کیا ہے۔ ؎ بہ تہدید گر برکشد تیغ حکم بمانند کروبیاں صم و بکم وگردردہد یک صلائے کرم عزازیل گوید نصیبے برم پس حدیث مندرجہ بالا کے بارے میں یہ بھی بہت زیادہ قرین قیاس ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ جس وقت بنی النجار کے اس باغ میں حضور ﷺ کے پاس پہنچے ہوں، تو اس وقت آپ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں شئونِ رحمت اور تجلیاتِ کرم کے مراقبے و مشاہدے میں مستغرق ہوں، اور اسی حالت میں آپ نے حضرت ابو ہریرہؓ کو بطور نشانی اپنی نعلینِ مبارک عطا فرما کر ہر شاہدِ توحید کو جنت کی خوشخبری سنا دینے کا حکم دے فیا ہو، لیکن حجرت عمرؓ چونکہ اس پوری حقیقت کے رازداں اور ان احوال و کیفیات کے اُتار چڑھاؤ سے باخبر تھے، اس لئے انہوں نے حضور ﷺ سے براہِ راست مراجعت و تحقیق تک حضرت ابو ہریرہؓ کو اس کے اعلانِ عام سے روکا ہو، دوسرے طور پر اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے، کہ حضرت عمرؓ پر اُس وقت رسول اللہ ﷺ کے قلبِ مبارک کی اس خاص کیفیت (یعنی غلبہ رجا و رحمت) کا انکشاف منجانب اللہ ہو چکا تھا، اور اُن کو اپنے نورِ فراست سے اس بات کا یقین تھا، کہ جب آنحضرتﷺ پر اس کیفیت کا غلبہ نہیں رہے گا، اور اس اعلان کا دوسرا پہلو آپ کے سامنے رکھا جائے گا، تو خود آپ اُس کو منع فرما دیں گے، جیسا کہ ظہور میں آیا۔۔۔ اس طرحکے مواقع پر صحیح حقیقت کا ادراک و انکشاف حضرت عمرؓ کی امتیازی فضیلت ہے، جس کو حدیثِ نبوی میں "مقام محدثیت" سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایک اور اصولی بات جس سے اس طرح کی بہت سی حدیثوں کا اشکال حل ہو جاتا ہے اس قسم کی آیات اور احادیث پر غور کرتے وقت ایک اصولی بات یہ بھی ملحوظ رکھنے کے قابل ہے کہ اس قسم کی بشارتوں میں متکلم کا مقصد اور مطمح نظر کسی عمل خیر کی ذات خاصیت اور اس کا اصلی اثر بتلانا ہوتا ہے، قطع نظر اس سے کہ اگر دوسرے اعمال کا تقاضا اس کے خلاف ہو، تو پھر انجام کیا ہو گا اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ طب کی کتابوں میں اسی اصول پر دواؤں کے خواص بیان کئے جاتے ہیں، مثلاًً لکھا جاتا ہے، کہ جو شخص اطریفل استعمال کرتا رہے گا، وہ ہمیشہ نزلہ سے محفوظ رہے گا، اب اس سے یہ سمجھ لینا کہ جو شخص اطریفل کھانے کے ساتھ ساتھ تیل، ترشی وغیرہ انتہائی درجے کی نزلہ پیدا کرنے والی چیزیں بھی برابر کھاتا رہے، اس کو بھی کبھی نزلہ نہیں ہو گا، سخت نافہمی اور اطبا کے طرزِ کلام سے ناواقفی ہے۔ اس اصول کی روشنی میں اس قسم کی حدیثوں کا مدعا صرف اتنا ہی ہے کہ توحید و رسالت کی شہادت کا ذاتی اقتضاء یہی ہے کہ ایسا آدمی عذاب دوزخ سے محفوظ رہے، اور جنت میں جائے، لیکن اگر اس نے اپنی بدبختی سے کچھ ایسے بداعمال بھی کئے ہیں جن کا ذاتی اقتضاء قرآن و حدیث میں عذاب پانا، اور دوزخ میں جانا ہی بتلایا گیا ہے، تو ظاہر ہے کہ وہ بھی اپنا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہی دکھائیں گے۔ اگر یہ چھوٹا سا نکتہ ملحوظ رکھا جائے، تو وعدہ و وعید اور ترغیب و ترہیب کے سلسلہ کی صدہا حدیثوں کے بارے میں لوگوں کو غلط فہمی اور اس کی وجہ سے جو الجھن ہوتی ہے، وہ ان شاء اللہ نہ ہو گی۔
Top