معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 25
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوهَا، وَصَلَّوْا صَلاَتَنَا، وَاسْتَقْبَلُوا قِبْلَتَنَا، وَذَبَحُوا ذَبِيحَتَنَا، فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ، إِلَّا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ» (رواه البخارى)
ایمان لانے کے بعد جوجان و مال معصوم و محفوظ ہو جاتے ہیں
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مجھے حکم دیا گیا ہے، کہ میں لوگوں سے جنگ جاری رکھوں، یہاں تک کہ وہ "لا الہ الا اللہ" کے قائل ہو جائیں، پس جب وہ "لا الہ الا اللہ" کے قائل ہو جائیں اور ہماری نمازیں پڑھنے لگیں، اور (اپنی نمازوں میں) ہمارے قبلہ کی طرف رُخ کرنے لگیں، اور ہمارا ذبیحہ کھانے لگیں، تو اُن کے خون اور اُن کے مال ہم پر حرام ہو گئے سوائے اس کے حق کے، اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے "۔ (بخاری)

تشریح
اس حدیث میں شہادتِ توحید کے ساتھ نماز پڑھنے اور نماز میں قبلہ اسلام کی طرف رخ کرنے اور اہلِ اسلام کا ذبیحہ کھانے کا ذکر بھی کیا گیا ہے، در حقیقت ان تمام چیزوں کا ذکر بھی بطور علامات اور نشانیوں ہی کے کیا گیا ہے، اور اصل مقصد اس حدیث کا بھی احادیث مندرجہ بالا کی طرح صرف اتنا ہی ہے، کہ ہماری جنگ جس کسی سے بھی ہے صرف دین کی خاطر، اور لوگوں کو کفر و شرک کی گمراہی سے نکال کر راہِ حق پر لانے کے لئے ہے، پس جو لوگ بے راہ روی چھوڑ کر اللہ کی بتلائی ہوئی سیدھی راہ اختیار کر لیں اور دینِ حق کی دعوت کو قبول کر لیں، اُ کے جان و مال سے تعرض کرنا ہمارے لئے حرام ہے اور چونکہ اس زمانہ اور اس ماحول میں ایمان و اسلام کی ظاہری علامات یہی تھیں، کہ آدمی مسلمانوں کے طریقے پر نماز پڑھنے لگے، اور نماز میں کعبہ کی طرف رُخ کرنے لگے، اور مسلمانوں کے ذبیحہ سے پرہیز نہ کرے، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے علامات ہی کے طور پر ان چیزوں کا بھی ذکر کر دیا۔ اور اسی حدیث کی سنن ابی داؤد میں "وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ" کی جگہ آخری الفاظ یہ ہیں "لَهُمْ مَا لِلْمُسْلِمِيْن وَعَلَيْهِمْ مَّا عَلَى الْمُسْلِمِيْن" جس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ دعوتِ اسلام کو قبول کر لیں، نہ صرف یہ کہ ہماری جنگ ان کے خلاف ختم ہو جائے گی، اور ان کے جان و مال کو امان حاصل ہو جائے گی، بلکہ پھر وہ تمام حقوق اور ذمہ داریوں میں بالکل ہمارے برابر ہوں گے۔ ان حدیثوں کے بارے میں ایک شبہ اور اس کا جواب ان احادیث پر سرسری نظر میں ایک شبہ ہوتا ہے، بعض شارحینِ حدیث نے خود ہی اس کو ذکر کر کے مختلف جوابات بھی دئیے ہیں، وہ شبہ یہ ہے، کہ اسلام میں جزیہ اور مناسب شرائط کے ساتھ مصالحت کا اصول بھی مسلم ہے، اور ان دونوں صورتوں پر بھی جنگ ختم ہو جاتی ہے، لیکن ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ صرف اُس وقت شروع کی جائے گی، جب کہ لوگ دعوتِ اسلام قبول کر لیں۔ راقم سطور کے نزدیک اس کا جواب یہ ہے، کہ ان احادیث کا مقصد اور موضوع، جنگ کو روک دینے اور اُس کو ختم کر دینے کی صورتیں بتلانا نہیں ہے، بلکہ ان ارشادات میں حضور ﷺ کا مطمح نظر صرف دو چیزوں کو واضح کرنا ہے، ایک یہ کہ ہماری جنگ کی غایت اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ لوگ اللہ ہی کی عبادت کرنے لگیں اور اس کی متعین کی ہوئی سیدھی راہ پر چلنے لگیں، یعنی دعوتِ اسلام کو قبول کر لیں، اور دوسرے یہ کہ جو لوگ اس دعوت کو قبول کر لیں گے، اُن کے جان و مال کو ہماری طرف سے قطعی امن ہو گا، بلکہ حقوق اور ذمہ داریوں میں وہ دوسرے مسلمانوں کے بالکل مساوی ہوں گے۔ رہا جزیہ یا کاص حالات میں کاص شرائط کے ساتھ مصالحت، سو اگرچہ یہ بھی جنگ ختم کر دینے کی صورتیں ہیں، لیکن یہ واقعہ ہے کہ یہ اسلامی جنگ کی اصل غایت نہیں ہیں، بلکہ چونکہ ان کے ذریعے اصل مقصد یعنی دعوتِ اسلام کے لئے ایک پر امن راہ کھل جاتی ہے، اس لئے ان پر جنگ روک دی جاتی ہے۔
Top