معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 28
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ (رواه البخارى ومسلم)
دین و ایمان کے شعبے اور اس کی شاخیں
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: "ایمان کے ستر سے بھی کچھ اوپر شاخیں ہیں اور ان میں سب سے اعلیٰ اور افضل تو "لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ" کا قائل ہونا، یعنی توحید کی شہادت دینا ہے اور ان میں ادنیٰ درجے کی چیز اذیت اور تکلیف دینے والی چیزوں کا راستے سے ہٹانا ہے اور حیا ایمان کی ایک اہم شاخ ہے"۔

تشریح
اس حدیث میں ایمان کے شعبوں کے لیے "ستر سے کچھ اوپر" کا جو عدد استعمال کیا گیا ہے، اس کے متعلق بعض شارحین نے لکھا ہے کہ: "اس سے غالباً صرف کثرت مراد ہے، اور اہل عرب صرف مبالغہ اور کثرت کے لئے بھی ستر کا لفظ عام طور سے بولتے ہیں، اور ستر پر "جو کچھ اور" اضافہ اس حدیث میں کیا گیا ہے، یہ غالباًٍٍ اور زیادہ مبالغہ پیدا کرنے کے لیے ہے (۱) "۔۔۔ لیکن بعض حضڑت نے "بِضْعٌ وَسَبْعُونَ" کے لفظ سے خاص عدد ستتر بھی سمجھا ہے، اس بنیاد پر کہ لفظ بِضْعٌ خاص سات کے عدد کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اور پھر ان حضرات نے اپنے اس خیال کے مطابق ایمان کے ان ستتر شعبوں کو متعین کرنے کی بھی کوشش کی ہے (۲)، لیکن ان میں غور کرنے کے بعد یہی رائے قائم ہوتی ہے کہ یہ محض تخمینے ہیں جن میں بہت کچھ رد و قدح کی گنجائش ہے، ہے، اس لیے راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ کا منشا "بِضْعٌ وَسَبْعُونَ" کے لفظ سے کوئی خاص عدد معین کرنا نہیں ہے، بلکہ محاورہ عرب کے مطابق صرف کثرت اور بہتات مُراد ہے، اور مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بہت زیادہ شعبے ہیں۔ اور ایک قرینہ اس کا یہ بھی ہے کہ اگر "بِضْعٌ وَسَبْعُونَ" سے آپ کا مطلب کوئی معین عدد نہیں ہوتا تو پھر آپ اس ابہام و اجمال پر اکتفا نہ فرماتے، بلکہ اُن کی تفصیل بھی فرماتے، جیسا کہ موقع اور مقام کا تقاضا تھا۔ ایمان کے شعبوں سے مُراد وہ تمام اعمال و اخلاق اور ظاہری و باطنی وہ سب احوال ہیں جو کسی دل میں ایمان کے آ جانے کے بعد اُس کے نتیجہ اور ثمرہ کے طور پر اس میں پیدا ہو جانے چاہئیں، جیسے کہ سرسبز و شاداب درخت میں برگ و بار نکلتے ہیں، اس طرح گویا تمام اعمالِ خیر و اخلاق حسنہ اور احوال صالحہ ایمان کے شعبے ہین، البتہ ان کے درجے مختلف ہیں۔ اس حدیث میں ایمان کا سب سے اعلیٰ شعبہ "لا الہ الا اللہ" یعنی توحید کی شہادت کو بتلایا گیا ہے، اور اس کے مقابلے میں ادنیٰ درجے کی چیز راستے سے تکلیف پہنچانے والی چیزوں کے ہٹانے کو قرار دیا ہے، اب ان کے درمیان جس قدر بھی اُمور، خیر کا تصور کیاجا سکتا ہے وہ سب ایمان کے شعبے اور اس کی شاخیں ہیں، خواہ ان کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے، اور ظاہر ہے کہ ان کا عدد سینکڑوں تک پہنچے گا۔ حدیث کے آخر میں حیا کے متعلق جو خصوصیت سے یہ فرمایا گیا ہے کہ "وہ ایمان کا ایک اہم شعبہ ہے" تو اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ جس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا، اس وقت کسی سے حیا میں کوئی کوتاہی ظاہر ہوئی تھی اس کی اصلاح کے لیے آپ نے یہ خصوصی انتباہ فرمایا، جیسا کہ صاحبِ حکمت معلمین و مصلحین کا طریقہ ہوتا ہے، یا حیا کے متعلق خصوصیت سے یہ تنبیہ اس لیے فرمائی گئی، کہ انسانی اخلاق میں حیا کا مقام نہایت بلند ہے، اور حیا ہی وہ خصلت ہے جو آدمی کو بہت سے معاصی اور بہت سی برائیوں سے روکتی ہے، اور اس وجہ سے ایمان اور حیا کے درمیان ایک خاص رشتہ ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ حیا صرف اپنے ہم جنسوں ہی سے نہیں کی جاتی، بلکہ سب سے زیادہ جس کی حیا ہم کو ہونی چاہئے وہ ہمارا خالق و پروردگار حق تعالیٰ ہے، عام لوگ بڑا بے حیا اور بے ادب اُس کو سمجھتے ہیں جو اپنے بڑوں کا پاس لحاظ نہ کرے، اور ان کے سامنے بے حیائی کے کام اور بُری باتیں کرے، لیکن فی الحقیقت سب سے بڑا بےحیا وہ بدبخت انسان ہے جو اپنے مولا سے نہیں شرماتا، اور یہ جاننے کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت مجھے اور میرے فعلوں کو بے حجاب دیکھتا اور میری باتوں کو بلا واسطہ سنتا ہے، اس کے سامنے وہ بُرے کام اور نا روا حرکتیں کرتا ہے۔ پس اگر آدمی میں حیا کا خُلق پوری طرح بیدار اور کار فرما ہو، تو نہ صرف یہ کہ اس کے ہم جنسوں کی نظروں میں اس کی زندگی پاکیزہ اور سُتھری ہو گی، بلکہ اس سے اللہ تعالیٰ کی معصیات کا صدور بھی بہت کم ہو گا۔ جامع ترمذی میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ» قَالُوا: إِنَّا نَسْتَحْيِي وَالْحَمْدُ لِلَّهِ , فَقَالَ: لَيْسَ ذَالِكَ وَلَكِنَّ الْاِسْتَحْيَاءَ مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ اَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ وَمَا حَوَى , وَالْبَطْنَ وَمَا وَعَى , وَتَذْكُرِ الْمَوْتَ وَالْبَلَاءَ , فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ اللہ تعالیٰ سے ایسی حیا کرو جیسے اُس سے حیا کرنی چاہئے مخاطبین نے عرض کیا: الحمد للہ ہم خدا سے حیا کرتے ہین، آپ نے فرمایا: یہ نہیں! بلکہ اللہ تعالیہٰ سے حیا کرنے کا حق یہ ہے کہ سر اور سر میں جو افکار و خیالات ہیں اُن سب کی نگہداشت کرو، اور پیٹ کی اور جو کچھ اُس میں بھرا ہوا ہے اس سب کی نگرانی کرو (یعنی بُرے خیالات سے دماغ کی، اور حرام و ناجائز غذا سے پیٹ کی حفاظت کرو) اور موت، اور موت کے بعد قبر میں تمہاری جو حالت ہونی ہے اُس کو یاد رکھو، جس نے یہ سب کچھ کیا، سمجھو کہ اللہ سے حیا کرنے کا حق اُس نے ادا کیا۔ (ترمذی)
Top