معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 2
أَبِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا»، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ: «أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ»، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، قَالَ: «أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ»، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: «مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ» قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا، قَالَ: «أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ»، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا، ثُمَّ قَالَ لِي: «يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟» قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ»
اسلام ، ایمان اور احسان (حدیث جبرئیل)
حضرت عمر بن الخطابؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے (اسی حدیث کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مجلسِ مبارک میں صحابہ کا ایک مجمع تھا اور حضرت اُن سے خطاب فرما رہے تھے۔ فتح) کہ اچانک ایک شخص سامنے سے نمودار ہوا، جس کے کپڑے نہایت سفید اور بال بہت ہی زیادہ سیاہ تھے۔ اور اُس شخص پر سفر کا کوئی اثر بھی معلوم نہیں ہوتا تھا، (جس سے خیال ہوتا تھا کہ یہ کوئی بیرونی شخص نہیں ہے) اور اسی کے ساتھ یہ بات بھی تھی کہ ہم میں سے کوئی شخص اس نو وارد کو پہچانتا نہ تھا (جس سے خیال ہوتا تھا کہ یہ کوئی باہری آدمی ہے، تو یہ حاضرین کے حلقہ میں سے گزرتا ہوا آیا) یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے آ کر دو زانو اس طرح بیٹھ گیا کہ اپنے گھٹنے آنحضرت کے گھٹنوں سے ملا دئیے، اور اپنے ہاتھ حضور کی رانوں پر رکھ دئیے ار کہا اے محمد! مجھے بتلائیے کہ "اسلام" کیا ہے؟ آپ نے فرمایا "اسلام" یہ ہے (یعنی اس کے ارکان یہ ہیں کہ دل و زبان سے) تم یہ شہادت ادا کرو کہ "اللہ" کے سوا کوئی "الہ" (کوئی ذات عبادت و بندگی کے لائق) نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو، اور ماہ رمضان کے روزے رکھو، اور اگر حج بیتُ اللہ کی تم استطاعت رکھتے ہو تو حج کرو، اس نو وارد سائل نے آپ کا یہ جواب سن کر کہا، آپ نے سچ کہا۔ راوئ حدیث حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ ہم کو اس پر تعجب ہوا کہ یہ شخص پوچھتا بھی اور پھر خود تصدیق و تصویب بھی کرتا جاتا ہے، اس کے بعد اس شخص نے عرض کیا اب مجھے بتلائیے کہ "ایمان" کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو اور اُس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور یوم آخر یعنی روزِ قیامت کو حق جانو اور حق مانو اور ہر خیر و شر کی تقدیر کو بھی حق جانو اور حق مانو، (یہ سن کر بھی) اس نے کہا، آپ نے سچ کہا۔ اس کے بعد اس شخص نے عرض کیا، مجھے بتلائیے کہ احسان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت و بندگی تم اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو، کیوں کہ اگرچہ تماس کو نہیں دیکھتے ہو پر وہ تو تم کو دیکھتا ہی ہے، پھر اُس شخص نے عرض کیا مجھے قیامت کی بابت بتلائیے (کہ وہ کب واقع ہو گی) آپ نے فرمایا کہ جس سے یہ سوال کیا جا رہا ہے وہ اس کو سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ پھر اس نے عرض کیا تو مجھے اس کی کچھ نشانیاں ہی بتلائیے؟ آپ ﷺ نے فرمایا (اس کی ایک نشانی تو یہ ہے کہ) لونڈی اپنی مالکہ اور آقا جو جنے گی، (اور دوسری نشانی یہ ہے کہ) تم دیکھو گے کہ جن کے پاؤں میں جوتا اور تن پر کپڑا نہیں ہے، اور جو تہی دست اور بکریاں چرانے والے ہیں وہ بڑی بڑی عمارتیں بنانے لگیں گے اور اس میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے، حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ یہ باتیں کر کے یہ نو وارد شخص چلا گیا، پھر مجھے کچھ عرصہ گزر گیا، تو حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا، اے عمر! کیا تمہیں پتہ ہے کہ وہ سوال کرنے والا شخص کون تھا؟ میں نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں، آپ نے فرمایا کہ وہ جبرئیل تھے، تمہاری اس مجلس میں اس لیے آئے تھے کہ تم لوگوں کو تمہارا دین سکھا دیں۔ (یہ حدیث صحیح مسلم کی ہے اور صحیح بخاری و مسلم میں یہی واقعہ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے بھی مروی ہے)

تشریح
اس حدیث میں سائل کے سوال کے جواب میں آنحضرتﷺ نے پانچ امور کا بیان فرمایا ہے، اسلام، دوسرے ایمان، تیسرے احسان، چوتھے قیامت کے متعلق انتباہ کہک اس کا وقتِ خاص اللہ کے سوا کسی کے علم میں نہیں، اور پانچویں قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی بعض علامات۔۔۔ ان پانچوں چیزوں کے متعلق جو کچھ اس حدیث میں بیان فرمایا ہے وہ تشریح طلب ہے۔ اسلام۔۔۔۔ کے اصل معنی ہیں اپنے کو کسی کے سپرد کر دینا، اور بالکل اُسی کے تابع فرمان ہو جانا۔۔۔ اور اللہ کے بھیجے ہوئے اور اس کے رسولوں کے لائے ہوئے "دین" کا نام اسلام اسی لیے ہے کہ اُس میں بندہ اپنے آپ کو بالکل مولا کے سپرد کر دیتا ہے، اور اس کی مکمل اطاعت کو اپنا دستور زندگی قرار دے لیتا ہے، اور یہی اصل حقیقت "دینِ اسلام" کی اور اسی کا مطالبہ ہے ہم سے۔ فرمایا گیا "فَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا" (حج ۳۴:۲۲) (تمہارا اللہ وہی الٰہ واحد ہے، لہذا تم اسی کے "مسلم" یعنی مطیع ہو جاؤ) اور اسی اسلام کے متعلق فرمایا گیا ہے "وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ" (نساء ۱۲۵:۴) (اور اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنے کو خدا کے سپرد کر دیا اور وہ اس طرح "مسلم بندہ" ہو گیا) اور اسی اسلام کے متعلق اعلان فرمایا گیا ہے "وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ" (آلِ عمران ۸۵:۳) (یعنی جس نے "اسلام" کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہا تو وہ ہرگز قبول نہ ہو گا اور وہ آدمی آخرت میں بڑے گھاٹے اور ٹوٹے والوں میں سے ہو گا) بہر حال "اسلام" کی اصل روح اور حقیقت یہی ہے کہ بندہ اپنے کو کلی طور پر اللہ کے سپرد کر دے اور ہر پہلو سے اس کا مطیع فرمان بن جائے۔ پھر انبیاء علیہم السلام کی لائی ہوئی شریعتوں میں اس "اسلام" کے لیے کچھ مخصوص ارکان بھی ہوتے ہیں جن کی حیثیت اس "حقیقت اسلام" کے "پیکر محسوس" کی سی ہوتی ہے، ااور اس حقیقت کا نشوونما اور اس کی تازگی بھی انہی سے ہوتی ہے، اور وہ صرف تعبّدی امور وتے ہیں، اور ظاہری نظر انہی "ارکان" کے ذریعہ فرق و امتیاز کرتی ہے۔ ان لوگوں کے درمیان جنہوں نے اپنا دستورِ حیات "اسلام" کو بنایا ہے، اور ان کے درمیان جنہوں نے نہیں بنایا۔ تو خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے "اسلام" کا جو آخری اور مکمل دستور ہمارے پاس آیا ہے اس میں توحید خداوندی اور رسالت محمدی کی شہادت، نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج بیت اللہ کو "ارکانِ اسلام" قرار دیا گیا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں وارد ہوا ہے "بُنِىَ الْاِسْلَامُ عَلىٰ خَمْسٍ الخ" (یعنی اسلام کی بنیاد ان پانچ چیزوں پر ہے) بہر حال یہ پانچ چیزیں جن کو آپ نے یہاں اس حدیث میں "اسلام" کے جواب میں بیان فرمایا "ارکانِ اسلام" ہیں اور یہی گویا "اسلام" کے لیے "پیکرِ محسوس" ہیں۔ اسی واسطے اس حدیث میں انہی کے ذریعہ اسلام کا تعارف کرایا گیا ہے۔ ایمان۔۔۔ کے اصل معنی کسی کے اعتبار اور اعتماد پر کسی بات کو سچ ماننے کے ہیں اور دین کی خاص اصطلاح میں ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے پیغمبر ایسی حقیقتوں کے متعلق جو ہمارے حواس اور آلات ادراک کے حدود سے ما وراء ہوں جو کچھ بتلائیں اور ہمارے پاس جو علم اور جو ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائیں ہم ان کو سچا مان کر اس میں ان کی تصدیق کریں اور اس کو حق مان کر قبول کر لیں۔ بہر حال شرعی ایمان کا تعلق اصولاً امور غیب ہی سے ہوتا ہے جن کو ہم اپنے آلاتِ احساس و ادراک (آنکھ، ناک، کان وغیرہ) کے ذریعہ معلوم نہیں کر سکتے۔ مثلاً اللہ اور اس کی صفات اور اس کے احکام اور رسولوں کی رسالت اور ان پر وحی کی آمد، اور مبداء و معاد کے متعلق ان کی اطلاعات، وغیرہ وغیرہ تو اس قسم کی جتنی باتیں اللہ کے رسول نے بیان فرمائیں ان سب کو ان کی سچائی کے اعتماد پر حق جان کر ماننے کا نام اصطلاح شریعت میں ایمان ہے، اور پیغمبر کی اس قسم کی کسی ایک بات کو نہ مانن یا اس کو حق نہ سمجھنا ہی اس کی تکذیب ہے، جو آدمی کو ایمان سے دائرہ سے نکال کر کفر کی سرحد میں داخل کر دیتی ہے پس آدمی کے مؤمن ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ "كُلُّ مَا جَاءَ بِهِ الرَّسُوْلُ مِنْ عِنْدِ اللهِ" کی (یعنی تمام ان چیزوں اور حقیقتوں کی جو اللہ کے پیغمبر اللہ کی طرف سے لائے) تصدیق کی جائے اور ان کو حق مان کر قبول کیا جائے۔۔۔ لیکن ان سب چیزوں کی پوری تفصیل معلوم ہونی ضروری نہیں ہے، بلکہ نفسِ ایمان کے لیے یہ اجمالی تصدیق بھی کافی ہے، البتہ کچھ خاص اہل اور بنیادی چیزیں ایسی بھی ہیں کہ ایمانی دائرہ میں آنے کے لیے ان کی تصدیق تعین کے ساتھ ضروری ہے، چنانچہ حدیث زیر تشریح میں ایمان سے متعلق سوال کے جعاب میں جن امور کا ذکر فرمایا گیا ہے (یعنی اللہ، ملائکہ، اللہ کی کتابیں، اللہ کے رسول، روزِ قیامت اور ہر خیر و شر کی تقدیر) تو ایمانیات میں سے یہ وہی اہم اور بنیادی امور ہیں جن پر تعین کے ساتھ ایمان لانا ضروری ہے، اور اسی واسطے آنحضرتﷺ نے ان کا ذکر صراحۃً اور تعین کے ساتھ فرمایا، اور قرآنِ پاک میں بھی یہ ایمانی امور اسی تفصیل اور تعین کے ساتھ مذکور ہیں، سورہ بقرہ کے آخری رکوع میں ارشاد ہے:آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ (۱) (بقرہ ۲۸۵:۲) وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا (۲) (نساء ۱۳۶:۴) ان امورِ ششگانہ میں سے "تقدیر خیر وہ شر" کا ذکر قرآن پاک میں اگرچہ ان ایمانیات کے ساتھ ان آیات میں نہیں آیا ہے، لیکن دوسرے موقع پر قرآن پاک نے اس کو بھی صراحۃً بیان فرمایا ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے: قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ (۳) (نساء ۷۸:۴) اور دوسری جگہ ارشاد ہے: فَمَن يُرِدِ اللَّـهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا(۴) (انعام ۱۲۵:۶) اب مختصراً یہ بھی معلوم کرنا چاہئے کہ ان سب پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟ سو اللہ پر ایمان لانے کا مطلب تو یہ ہے کہ اس کے موجود وحدہ لا شریک خالقِ کائنات اور رب العالمین ہونے کا یقین کیا جائے، عیب و نقص کی ہر بات سے پاک، ار ہر صفتِ کمال سے اس کو متصف سمجھا جائے۔ اور ملائکہ پر ایمان لانا یہ ہے کہ مخلوقات میں ایک مستقل نوع کی حیثیت سے ان کے وجود کو حق مانا جائے اور یقین کیا جائے کہ وہ اللہ کی ایک پاکیزہ اور محترم مخلوق ہےبَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ (۱) (انبیاء ۲۶:۲۱) جس میں شر اور شرارت اور عصیان و بغاوت کا عنصر ہی نہیں بلکہ ان کا کام صرف اللہ کی بندگی اور اطاعت ہے لَّا يَعْصُونَ اللَّـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (۲) (تحریم ۶۶:۶) ان کے متعلق کام ہیں اور ان کی ڈیوٹیاں (فرائض) ہیں جن کو وہ خوبی سے انجام دیتے ہیں۔ ملائکہ کے متعلق ایک شبہ اور اس کا ازالہ ملائکہ کے وجود پر یہ شبہ کہ اگر وہ موجود ہوتے تو نظر آتے سخت جاہلانہ شبہ ہے۔ دنیا میں کتنی ہی چیزیں ہیں جو باوجود موجود ہونے کے ہم کو نظر نہیں آتیں، کیا زمانہ حال کی خورد بینوں کی ایجاد سے پہلے کسی نے پانی میں، ہوا میں اور خون کے قطرہ میں وہ جراثیم دیکھے تھے جن کو خوردبین سے آج ہر آنکھ والا دیکھ سکتا ہے اور کیا کسی آلہ سے بھی ہم اپنی روح کو دیکھ پاتے ہیں۔ تو جس طرح ہماری آنکھ خود اپنی روح کو دیکھنے سے اور بغیر خوردبین کے پانی وغیرہ کے جراثیم دیکھنے سے عاجز ہے، اسی طرح فرشتوں کو دیکھنے سے بھی وہ قاصر ہے۔۔۔ اور پھر کیا اس کی کوئی دلیل ہے کہ جس چیز کو ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے وہ موجود نہیں ہو سکتی؟ کیا ہماری آنکھوں اور ہمارے حواس نے کل عالم موجودات کا احاطہ کر لیا ہے؟ ایسی بات خاص کر اس زمانہ میں جب کہ روز روز نئے انکشافات ہو رہے ہیں، کوئی بڑا احمق ہی کہہ سکتا ہے، دراصل انسان کا علم اور اس کے علمی ذرائع بہت ہی ناقص اور محدود ہیں۔ اسی کو قرآن مجید میں فرمایا گیا ہےوَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (بنی اسرائیل ۸۵:۱۷) اور اللہ کی کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ یقین کیا جائے کہ اللہ پاک نے اپنے رسولوں کے ذریعہ وقتاً فوقتاً ہدایت نامے بھیجے، ان میں سب سے آخر اور سب کا خاتم قرآن مجید ہے۔ جو پہلی سب کتابوں کا مصدق اور مہیمن بھی ہے، یعنی اُن کتابوں میں جتنی ایسی باتیں تھیں جن کی تعلیم و تبلیغ ہمیشہ اور ہر زمانہ میں ضروری ہوتی ہے وہ سب اس قرآن میں لے لی گئی ہیں، گویا یہ تمام کتبِ سماویہ کے ضروری مضامین پر حاوی اور سب سے مستغنی کر دینے والی خدا کی آخری کتاب ہے اور چونکہ وہ کتابیں اب محفوظ بھی نہیں رہیں اس لئے اب صرف یہی کتاب ہدایت ہے جو سب کے قائم مقام اور سب سے زیادہ مکمل ہے اور زمانہ آخر تک اس کی حفاظت کی ذمہ داری اسی لیے خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (حجر ۹:۱۵) اور "اللہ کے رسولوں" پر ایمان لانا یہ ہے کہ اس واقعی حقیقت کا یقین کیا جائے کہ اللہ نے اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے وقتاً فوقتاً اور مختلف علاقوں میں اپنے برگزیدہ بندوں کو اپنی "ہدایت" اور اپنی رضامندی کا دستور دے کر بھیجا ہے، اور انہوں نے پوری امانت و دیانت کے ساتھ خدا کا وہ پیغام بندوں کو پہنچا دیا، اور لوگوں کو راہ راست پر لانے کی پوری پوری کوششیں کیں، یہ سب پیغمبر اللہ کے برگزیدہ اور صادق بندے تھے (ان میں سے چند کے نام اور کچھ حالات بھی قرآن کریم میں ہم کو بتلائے گئے ہیں اور بہت سوں کے نہیں بتلائے گئے) مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ (مؤمن ۷۸:۴۰) بہر حال خدا کے ان سب رسولوں کی تصدیق کرنا اور بحیثیت پیغمبری ان کا پورا پورا احترام کرنا ایمان کے شرائط میں سے ہے، اور اسی کے ساتھ اس پر بھی ایمان لانا ضروری ہے کہ اللہ نے اس سلسلہ نبوت و رسالت کو حضرت محمدﷺ پر ختم کر دیا، آپ خاتم الانبیاء اور خدا کے آخری رسول ہیں اور اب قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے لئے نجات و فلاح آپ ہی کی اتباع اور آپ ہی کی ہدایت کی پیروی میں ہے۔ صَلىَّ اللهُ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَعَلىٰ سَائِرِ الْاَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ وَعَلىٰ كُلِّ مَنِ اتَّبَعَهُمْ بِاِحْسَانٍ اِلىٰ يَوْمِ الدِّيْنِ۔ اور "ایمان بالیوم الآخر" یہ ہے کہ اس حقیقت کا یقین کیا جائے کہ یہ دُنیا ایک دن قطعی طور پر فنا کر دی جائے گی اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی خاص قدرت سے پھر سارے مُردوں کو جِلائے گا اور یہاں جس نے جیسا کچھ کیا ہے اسی کے مطابق جزا یا سزا اس کو دی جائے گی۔ معلوم ہونا چاہیئے کہ چوں کہ دین و مذہب کے سارے نظام کی بنیاد اس حیثیت سے جزا و سزا ہی کے عقیدہ پر ہے کہ اگر آدمی اس کا قائل نہ ہو تو پھر وہ کسی دین و مذہب اور اس کی تعلیمات و ہدایات کو ماننے اور اس پر عمل کرنے ہی کی ضرورت کا قائل نہ ہو گا، اس لیے ہر مذہب میں خواہ وہ انسانوں کا خود ساختہ ہو یا اللہ کا بھیجا ہوا، "جزا و سزا" کو بطور بنیادی عقیدہ کے تسلیم کیا گیا ہے۔ پھر انسانی دماغوں کے بنائے ہوئے مذاہب میں اس کی شکل تناسخ وغیرہ تجویز کی گئی ہے، لیکن خدا کی طرف سے آئے ہوئے ادیان و مذاہب کُل کے کُل اس پر متفق ہیں کہ اس کی صورت وہی حشر و نشر کی ہو گی جو اسلام بتلاتا ہے اور قرآن پاک میں اُس پر اس قدر استدلالی روشنی ڈالی گئی ہے کہ کوئی اعلیٰ درجہ کا احمق اور انتہائی قسم کا ناسمجھ ہی ہو گا جو اُن قرآنی دلائل و براہین کے سامنے آ جانے کے بعد بھی حشر و نشر اور بعث بعد الموت کو ناممکن اور محال یا مستبعد بھی کہے۔ اور "ایمان بالقدر" یہ ہے کہ پر یقین لایا جائے اور مانا جائے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے (خواہ وہ خیر ہو یا شر) وہ سب اللہ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہے۔ جس کو وہ پہلے ہی طے کر چکا ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہ تو کچھ اور چاہتا ہو اور دُنیا کا یہ کارخانہ اُس کی منشاء کے خلاف اور اس کی مرضی کے علی الرغم چل رہا ہو، ایسا ماننے میں خدا کی انتہائی عاجزی اور بےچارگی لازم آئے گی۔ (۳) احسان۔۔۔ اسلام و ایمان کے بعد سائل نے تیسرا سوال رسول اللہ ﷺ سے "احسان" کے متعلق کیا تھا کہ "مَا الْاِحْسَانُ؟" یعنی "احسان" کی کیا حقیقت ہے؟ یہ "احسان" بھی ایمان و اسلام کی طرح خاص دینی اور بالخصوص قرآنی اصطلاح ہے۔ فرمایا گیا ہے "بَلٰى ١ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ" وہاں جس نے اپنے خدا کے سپرد کر دیا اور اس کے ساتھ "احسان" کا وصف بھی اس میں ہوا تو اس کے رب کے پاس اس کے لیے خاص (اجر ہے)۔ اسی طرح دوسری جگہ فرمایا گیا ہے: "وَ مَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ" (اور اس سے اچھا دین میں کون ہو سکتا ہے جس نے اپنے کو خدا کے سپرد کر دیا اور ساتھ ہی وہ محسن (یعنی صاحب احسان بھی ہے)۔ ہماری زبان اور ہمارے محاورہ میں تو "احسان" کے معنی کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے ہیں، لیکن یہاں جس "احسان" کا ذکر ہے وہ اس کے علاوہ ایک خاص اصطلاح ہے اور اس کی حقیقت وہی ہے جو حدیث زیر تشریح میں آنحضرتﷺ نے بیان فرمائی یعنی خدا کی بندگی اس طرح کرنا جیسے کہ وہ قہار و قدوس اور ذوالجلال والجبروت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور گویا ہم اس کو دیکھ رہے ہیں۔ اس کو یوں سمجھئے کہ غلام ایک تو اپنے آقا کے احکام کی تعمیل اس وقت کرتا ہے جب کہ وہ اس کے سامنے موجود ہو اور اس کو یقین ہو کہ وہ مجھے اچھی طرح دیکھ رہا ہے اور ایک رویہ اس کا اس وقت ہوتا ہے جب کہ وہ آقا کی غیر موجودگی میں کام کرتا ہے، عموماً اُن دونوں وقتوں کے طرز عمل میں فرق ہوتا ہے، اور عام طور سے یہی ہوتا ہے کہ جس قدر دلی دھیان اور محنت اور خوبصورتی کے ساتھ وہ آقا کی آنکھوں کے سامنے کام کرتا اور جس خوش اسلوبی سے اس وقت وظائف خدمت کو انجام دیتا ہے، مالک کی عدم موجودگی میں اس کا حال وہ نہیں ہوتا، یہی حال بندوں کا اپنے حقیقی مولیٰ کے ساتھ بھی ہے جس وقت بندہ یہ محسوس کرے کہ میرا وہ مولیٰ حاضر ناظر ہے، میرے ہر کام بلکہ میری ہر ہر حرکت اور ہر ہر سکون کو وہ دیکھ رہا ہے، تو اس کی ایک خاص کیفیت اور اس کی بندگی میں ایک خاص شان نیاز مندی ہو گی، جو اُس وقت میں نہیں ہو سکتی جب کہ اس کا دل اس تصور اور اس احساس سے خالی ہو۔۔ تو "احسان"یہی ہے کہ اللہ کی بندگی اس طرح کی جائے گویا کہ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، اور ہم اس کے سامنے ہیں اور وہ ہم کو دیکھ رہا ہے۔ یہی مطلب ہے اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کا کہ: (الإِحْسَانُ) أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ احسان اس کا نام ہے کہ تم اللہ کی بندگی اس طرح کرو گویا کہ اس کو دیکھ رہے ہو۔ کیوں کہ اگرچہ تم اس کو نہیں دیکھتے ہو مگر وہ تو تم کو دیکھتا ہی ہے۔ (۱) ایک انتباہ۔۔۔ حدیث کے اس ٹکڑے کی تقریر و توضیح بہت سے حضرات اس طرح کرتے ہیں کہ گویا اس کا تعلق "نماز" ہی سے ہے، اور گویا اس کا مطلب بس یہ ہے کہ نماز پورے خصوع و خشوع سے پڑھی جائے۔ حالانکہ حدیث کے الفاظ میں اس خصوصیت کے لئے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے، حدیث میں تو "تَعْبُدَ" کا لفظ ہے جس کے معنی مطلق عبادت اور بندگی کے ہیں لہذا نماز کے ساتھ آنحضرت کے اس ارشاد کو مخصوص کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ بلکہ اسی حدیث کی ایک اور روایت میں بجائے "تَعْبُدَ" کے "تَخْشىٰ" کا لفظ بھی آیا ہے یعنی (الاحسان) اَنْ تَخْشَى اللهُ كَاَنَّكَ تَرَاهُ الخ جس کا ترجمہ یہ ہو گا کہ "احسان" یہ ہے کہ تم خدا سے اس طرح ڈرو کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہو۔ الخ اور اسی واقعہ کی ایک روایت میں اس موقع پر یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ الْاِحْسَانُ اَنْ تَعْمَلَ لِلهِ كَاَنَّكَ تَرَاهُ الخ جس کا ترجمہ یہ ہو گا کہ "احسان" اس کا نام ہے کہ تم ہر کام اللہ کے لئے اس طرح کرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو الخ۔ ان دونوں روایتوں سے یہ بات اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے کہ "احسان" کا تعلق صرف نماز ہی سے نہیں ہے بلکہ انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی ہر عبادت و بندگی اور اس کے ہر حکم کی اطاعت و فرمانبرداری اس طرح کی جائے اور اس کے مواخذہ سے اس طرح ڈرا جائے کہ گویا وہ ہمارے سامنے ہے اور اور ہماری ہر حرکت و سکون کو دیکھ رہا ہے۔ ۴۔ الساعۃ۔۔۔ یعنی "قیامت"، اسلام، ایمان اور احسان کے متعلق سوالوں کے بعد آنحضرت ﷺ سے سائل نے عرض کیا تھا "فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ" یعنی مجھے قیامت کی بابت بتلائیے کہ کب آئیگی؟ آپ نے جواب دیا "مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ" (یعنی جس سے سوال کیا جا رہا ہے اس کو خود اس بارہ میں سائل سے زیادہ علم نہیں ہے) یعنی قیامت کے وقت خاص کا علم جس طرح سائل کو نہیں ہے مجھے بھی نہیں ہے۔ اس حدیث کی ابو ہریرہؓ والی روایت میں (جو صحیح بخاری میں بھی ہے) اس موقعہ پر یہ الفاظ اور ہیں "فِىْ خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهَا اِلَّا الله إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ " (یعنی رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمانے کے بعد کہ قیامت کے بارے میں (یہ فرمانے کے بعد کہ میرا علم سائل سے زیادہ نہیں ہے) یہ مزید افادہ فرمایا کہ یہ (وقت قیامت تو) ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کے متعلق قرآن کریم کی اس آیت (إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ الخ) میں اعلان کر دیا گیا ہے کہ ان کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے اس کے سوا ان کو کوئی نہیں جانتا۔ شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قیامت کے سوال کے جواب میں بجائے یہ فرمانے کے کہ "مجھے اس کا علم نہیں" یہ پیرایہ بیان (کہ اس بارے میں مسئول عنہ کا علم سائل سے زیادہ نہیں ہے) اس لئے اختیار فرمایا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ کسی سائل اور کسی مسئول کو بھی اس کا علم نہیں ہے، اور آیت قرآنی تلاوت کر کے آپ نے اس کو اور زیادہ محکم فرما دیا۔ ۵۔ علاماتِ قیامت۔۔۔ وقت قیامت کے متعلق مذکورہ بالا جواب پانے کے بعد سائل نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا تھا کہ "فَاَخْبِرْنِىْ عَنْ اِمَارَاتِهَا" (مجھے قیامت کی کچھ نشانیاں ہی بتلائیے!) اس کے جواب میں آنحضرت ﷺ نے دو خاص نشانیاں بیان فرمائیں۔ ایک یہ کہ "لونڈی اپنی مالکہ اور آقا کو جنے گی" اور دوسری یہ کہ نادار اور ننگے اور بھوکے لوگ جن کا کام بکریاں چرانا ہو گا وہ بھی بڑی بڑی شاندار عمارتیں بنائیں گے۔ پہلی جو نشانی آپ نے بیان فرمائی اس کا مطلب شارحین حدیث نے کئی طرح سے بیان کیا ہے، راقم کے نزدیک سب سے زیادہ راجح توجیہ یہ ہے کہ قرب قیامت میں ماں باپ کی نافرمانی عام ہو جائے گی حتیٰ کہ لڑکیاں جن کی سرشت میں ماؤں کی اطاعت اور وفاداری کا عنصر بہت غالب ہوتا ہے اور جن سے ماں کے مقابلہ میں سرکشی بظاہر بہت ہی مشکل اور مستبعد ہے، وہ بھی نہ صرف یہ کہ ماؤں کے مقابلہ میں نافرمان ہو جائیں گی بلکہ الٹی اس طرح ان پر حکومت چلائیں گی جس طرح ایک مالکہ اور رسیدہ اپنی زر خرید باندی پر حکومت کرتی ہے۔ اسی کو حضرت نے اس عنوان سے تعبیر سے تعبیر فرمایا ہے کہ "عورت اپنی مالکہ اور آقا کو جنے گی"۔ یعنی عورت سے جو لڑکی پیدا ہو گی وہ بڑی ہو کر خود اس ماں پر اپنی حکومت چلائے گی اور کوئی شک نہیں کہ اس نشانی کے ظہور کی ابتدا ہو چکی ہے۔ اور دوسری جو نشانی حضرت نے بیان فرمائی کہ "بھوکے ننگے اور بکریوں کے چرانے والے اونچے اونچے محل بنوائیں گے"۔ تو یہ اس طرف اشارہ ہے کہ قرب قیامت میں دنیوی دولت و بالا تری ان اراذل کے ہاتھوں میں آئے گی جو ان کے اہل نہ ہوں گے۔ اور ان کو بس اونچے اونچے شاندار محل بنوانے سے شغف ہو گا اور اسی کو وہ سرمایہ فخر و مباہات سمجھیں گے اور اس میں اپنی اولوالعزمی دکھائیں گے اور ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے۔ ایک دوسری حدیث میں اسی مضمون کو ان الفاظ مین بیان فرمایا گیا ہے "اِذَا وُسِّدَ الْاَمْرُ اِلىٰ غَيْرِ اَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ" (یعنی جب حکومتی اختیارات اور مناصب و معاملات نااہلوں کے سپرد ہونے لگیں تو پھر قیامت کا انتظار کرو۔) زیرِ تشریح حدیث کے آخر میں ہے کہ اس سائل کے چلے جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے بتلایا کہ یہ سائل جبرئیل امین تھے اور اس لئے سائل بن کر آئے تھے کہ اس سوال و جواب کے ذریعے صحابہؓ کو دین کی تعلیم و تذکیر ہو جائے۔ اس حدیث کی بعض روایات میں یہ تصریح بھی ہے کہ حضرت جبرئیل کی یہ آمد اور گفتگو رسول اللہ ﷺ کی عمر شریف کے آخری حصہ میں ہوئی تھی۔ (فتح الباری و عمدۃ القاری) گویا تئیس سال کی مدت میں جس دین کی تعلیم مکمل ہوئی تھی اللہ تعالیٰ کی رحمت نے چاہا کہ جبرئیل کے ان سوالات کے جواب میں رسول اللہ ﷺ کی زبانِ مبارک سے پورے دین کا خلاصہ اور لب لباب بیان کرا کے صحابہؓ کے علم کی تکمیل کر دی جائے اور اُن کو اس امانت کا امین بنا دیا جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ دین کا حاصل بس تین ہی باتیں ہیں: ۱۔ یہ کہ بندہ اپنے کو بالکل اللہ تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار بنا دے اور اس کی بندگی کو اپنی زندگی بنا لے، اور اسی کا نام اسلام ہے اور ارکان اسلام اسی حقیقت کے مظاہر ہیں۔ ۲۔ اُن اہم غیبی حقیقتوں کو مانا جائے اور اُن پر یقین کیا جائے جو اللہ کے پیغمبروں نے بتلائیں اور جن کو ماننے کی دعوت دی اور اسی کا نام ایمان ہے۔ ۳۔ اور اللہ نصیب فرمائے تو اسلام و ایمان کی منزلیں طے کر لینے کے بعد تیسری اور آخری تکمیلی منزل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا یسا استحضار اور دل کو مراقبہ حضور و شہود کی ایسی کیفیت نصیب ہو جائے کہ اس کے احکام کی تعمیل اور اُس کی فرمانبرداری و بندگی اس طرح ہونے لگے کہ گویا اپنے پورے جمال و جلال کے ساتھ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور ہم کو دیکھ رہا ہے اور اسی کیف و حال کا نام احسان ہے۔ اسی طرح اس سوال و جواب میں گویا پورے دین کا خلاصہ اور عطر آ گیا، اور اس لئے اس حدیث کو علما نے "ام السنہ" بھی کہا ہے، گویا جس طرح قرآن مجید کے تمام اہم مطلب اور مضامین پر بالا جمال حاوی ہونے کی وجہ سے سورہ فاتحہ کا نام "ام الکتاب" ہے اسی طرح یہ حدیث اپنی اس جامع حیثیت کی وجہ سے "ام السنہ" کہی جانے کی مستحق ہے اور اس کی اسی خصوصیت کی وجہ سے امام مسلم نے اپنی جلیل القدر کتاب صحیح مسلم کو مقدمہ کے بعد اسی حدیث سے شروع کیا ہے، اور امام بغوی نے بھی اپنی دونوں تالیفوں "مصابیح" اور "شرح السنہ" کا آغاز اسی حدیث سے کیا ہے۔ یہ حدیث حضرت عمرؓ کی روایت سے جس طرح کہ یہاں نقل کی گئی صحیح مسلم میں ہے اور صحیح مسلم اور صحیح بخاری دونوں میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے بھی یہ واقعہ مروی ہے اور دوسری کتب حدیث میں اور بھی چند صحابہ کرام سے یہ واقعہ روایت کیا گیا ہے۔
Top