معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 43
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لاَ يَعْنِيهِ.(رواه ابن ماجة والترمذى والبيهقى فى شعب الايمان)
ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "آدمی کے اسلام کی خوبی اور اس کے کمال میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ فضول اور غیر مفید کاموں اور باتوں کا تارک ہو"۔ (رواہ ابن ماجہ، ترمذی، شعب الایمان للبیھقی)

تشریح
انسان اشرف المخلوقات ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کو بہت قیمتی بنایا ہے، اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان کو اس وقت کا اور صلاحیتوں کا جو سرمایا دیا گیا ہے، وہ اس کو بالکل ضائع نہ کرے، بلکہ صحیح طور سے اس کو استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ ترقی اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور قُرب حاصل کرے۔۔۔ یہی دین کی تمام تعلیمات کا حاصل اور لبِ لباب ہے، اور یہی ایمان و اسلام کا مقصد ہے، اس لیے جو خوش نصیب یہ چاہے کہ اُس کو ایمان کا کمال حاصل ہو اور اُس کے اسلام کے حسن پر کوئی داغ دھبہ نہ ہو، تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ کھلے گناہوں اور بداخلاقیوں کے علاوہ تمام فضول اور غیر مفید کاموں اور باتوں سے بھی اپنے کو بچائے رکھے، اور اپنے وقت اور اپنی تمام خداداد قوتوں اور صلاحیتوں کو بس ان ہی کاموں میں لگائے جن میں خیر اور منفعت کا کوئی پہلو ہو، یعنی جو معاد یا معاش کے لحاظ سے ضروری یا مفید ہوں۔۔۔ یہی اس حدیث کا مطلب ہے۔ جو لوگ غفلت سے لایعنی باتوں اور بے حاصل چیزوں میں اپنا وقت اوراپنی قوتیں صرف کرتے ہیں، وہ نادان جانتے نہیں کہ اللہ نے ان کو کتنا قیمتی بنایا ہے، اور وہ اپنے کیسے بیش بہا خزانہ کو مٹی میں ملاتے ہیں، اس حقیقت کو جنہوں نے سمجھ لیا ہے، بس وہی دانا اور عارف ہیں۔
Top