معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 45
عَنْ أَبِىْ سَعِيد الْخُدْرِى عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ رَأَى مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ» (رواه مسلم)
ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی تم میں سے کوئی بری اور خلاف شرع بات دیکھے، تو لازم ہے کہ اگر طاقت رکھتا ہو، تو اپنے ہاتھ سے (یعنی زور و قوت سے) اس کو بدلنے کی (یعنی درست کرنے کی) کوشش کرے، اور اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو، تو پھر اپنی زبان سے اس کو بدلنے کی کوشش کرے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل ہی سے اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے۔ (مسلم)

تشریح
اس سے پہلی حدیث میں ایک خاص طبقے کی بدکاری اور بدکرداری کے خلاف حسب استطاعت جدو جہد کو لازمہ ایمان قرار دیا گیا تھا، اور اس حدیث میں ہر برائی اور ہر شرارت کو روکنے اور اس کو بدل ڈالنے کی بقدر استطاعت سعی و کوشش کا عام حکم فرمایا گیا ہے، اور اوپر والی حدیث کی طرح یہاں بھی اس کے تین درجے بتلائے گئے ہیں۔ ۱۔ اگر طاقت و اقتدار حاصل ہو اور اس کے ذریعہ اس برائی کو روکا جا سکتا ہو، تو طاقت استعمال کر کے اس کو روکا جائے۔ ۲۔ اگر طاقت و اقتدار اپنے ہاتھ میں نہیں ہے تو زبانی افہام و تفہیم اور پند و نصیحت ہی سے اس کو روکنے کی اور اصلاح کی کوشش کی جائے۔ ۳۔ اگر حالات ایسے ناموافق ہیں اور اہلِ دین اس قدر کمزور پوزیشن میں ہیں کہ اس برائی کے خلاف زبان کھولنے کی بھی گنجائش نہیں ہے، تو آخری درجہ یہ ہے کہ دل میں اس کو برا سمجھا جائے اور اس کو مٹانے اور بدل کا جذبہ دل میں رکھا جائے، جس کا فطری نتیجہ کم از کم یہ ہو گا کہ دل اللہ تعالیٰ سے اس کے مٹانے کی دعا کرتا رہے گا، اور تدبیریں بھی سوچا کرے گا۔ اس آخری درجے کو حدیث میں "أَضْعَفُ الْإِيمَانِ" فرمایا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایمان کا وہ آخری کمزور درجہ ہے، کہ اس کے بعد کوئی اور درجہ ایمان کا ہے ہی نہیں، یہی بات پہلی حدیث میں دوسرے لفظوں میں فرمائی گئی تھی۔ اس حدیث کی رو سے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ جو برائیاں اس کے سامنے اس قسم کی ہوں، جو زور و قوت سے روکی جا سکتی ہوں، تو اگر اس کو وہ زور قوت حاصل ہو تو اس کو استعمال کر کے وہ اس برائی کو روکنے کی کوشش کرے، اور اگر زور قوت ہاتھ سے خالی ہو تو پھر زبانی افہام و تفہیم سے کام لے، اور اگر حالات میں اس کی بھی گنجائش نہ ہو تو پھر کم از کم دل میں اس کے خلاف جذبہ اور سوزش ہی رکھے۔
Top