معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 5
عَنْ أَبِىْ أَيُّوبَ أَنَّ أَعْرَابِيًّا عَرَضَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي سَفَرٍ، فَأَخَذَ بِخِطَامِ نَاقَتِهِ - أَوْ بِزِمَامِهَا ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ - أَوْ يَا مُحَمَّدُ - أَخْبِرْنِي بِمَا يُقَرِّبُنِي مِنَ الْجَنَّةِ، وَمَا يُبَاعِدُنِي مِنَ النَّارِ، قَالَ: فَكَفَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَظَرَ فِي أَصْحَابِهِ، ثُمَّ قَالَ: «لَقَدْ وُفِّقَ، أَوْ لَقَدْ هُدِيَ»، قَالَ: كَيْفَ قُلْتَ؟ قَالَ: فَأَعَادَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَعْبُدُ اللهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ، دَعِ النَّاقَةَ» (رواه مسلم)
ارکانِ اسلام پر جنت کی بشارت
حضرت ابو ایوبؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے، کہ ایک بدوی سامنے آ کھڑا ہوا، اور اس نے آپ کے ناقہ کی مُہار پکڑ لی پھر کہا اے اللہ کے رسول! (یا آپ کا نام لے کر کہا کہ اے محمد!) مجھے وہ بات بتاؤ جو جنت سے مجھے قریب اور آتش دوزخ سے دور کر دے؟ راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ رُک گئے (یعنی آپ نے اس سوال کا جواب دینے کے لئے اپنی ناقہ کو روک لیا) پھر اپنے رفقاء کی طرف آپ نے دیکھا اور (اُن کو متوجہ کرتے ہوئے) فرمایا کہ اس کو اچھی توفیق ملی (یا فرمایا کہ اس کو خوب ہدایت ملی) پھر آپ نے اس اعرابی سائل سے فرمایا کہ "ہاں! ذرا پھر کہنا تم نے کس طرح کہا؟" سائل نے اپنا وہی سوال پھر دُہرایا (مجھے وہ بات بتا دو، جو جنت سے مجھے نزدیک اور دوزخ سے دور کر دے) حضور ﷺ نے فرمایا "عبادت اور بندگی کرتے رہو صرف اللہ کی اور کسی چیز کو اُس کے ساتھ کسی طرح بھی شریک نہ کرو، اور نماز قائم کرتے رہو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو، اور صلہ رحمی کرو۔ (یعنی اپنے اہل قرابت کے ساتھ حسبِ مراتب اچھا سلوک رکھو، اور اُنکے حقوق ادا کرو) یہ بات ختم فرما کر حضرت نے اس بدوی سے فرمایا کہ "اب ہماری ناقہ کی مہار چھوڑ دو"۔ (مسلم)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے جنت سے قریب اور جہنم سے بعید کرنے والے اعمال میں سے صرف اللہ کی خالص عبادت، اقامتِ صلوٰۃ اور ادائے زکوٰۃ اور صلہ رحمی ہی کا ذکر فرمایا۔ حتیٰ کہ روزہ اور حج کا بھی ذکر نہیں کیا، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی کے لیے بس یہی چار باتیں کافی ہیں، اور ان کے علاوہ جو فرائض و واجبات ہیں وہ غیر ضروری یا غیر اہم ہیں۔ ایسا سمجھنا اور احادیث میں اس قسم کی موشگافیاں پیدا کرنا فی الحقیقت سلامتِ فہم اور خوش مذاقی سے بہت دور ہے۔ حدیث کے طالبعلم کو یہ اصول ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ امت کے لیے ایک شفیق معلم اور مشفق مربی ہیں آپ کوئی مصنف اور مؤلف نہیں ہیں۔ اور شفیق معلم کا طریقہ یہی ہوتا ہے اور یہی اُس کے لیے صحیح بھی ہے کہ وہ جس موقع پر جس بات کی تلقین و تعلیم زیادہ مناسب سمجھتا ہے بس اُس وقت اُتنی ہی بات بتلاتا ہے۔ یہ طریقہ "مصنفوں" کا ہے کہ جہاں وہ جس موضوع پر کلام کرتے ہیں اُسکے تمام اطراف و جوانب اور مالہ وما علیہ کو اسی جگہ بیان کرتے ہیں کسی شفیق و معلم مربی کی تعلیم و تلقین میں بھی مصنفین و اربابِ فنون کا یہی طرز بیان تلاش کرنا درحقیقت خود اپنی بدذوقی ہے۔ پس روزہ، حج اور جہاد وغیرہ کا اس حدیث میں جو ذکر نہیں ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اُس وقت اس سائل کو ان ہی چار باتوں کی تذکیر و ترغیب کی خاص ضرورت تھی، اور شاید اس کا سبب یہ ہو کہ عموماً ان ہی چار چیزوں میں لوگوں سے کوتاہی زیادہ ہوتی ہے، یعنی اقامتِ صلوٰۃ، ادائے زکوٰۃ اور صلہ رحمی میں غفلت و کوتاہی اور اللہ کے ساتھ شرک کا خطرہ دوسری قسم کی کوتاہیوں سے زیادہ رہتا ہے۔ آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ روزہ اور حج جن پر فرض ہے اُن میں اُن کے تارک اتنے نہیں ہیں جتنے نماز و زکوٰۃ اور صلہ رحمی وغیرہ حقوق العباد کی ادائیگی میں غفلت کرنے والے ہیں یا جو کسی قسم کے جلی یا خفی شرک میں ملوث ہیں۔ ایسے آدمی تو شائد تلاش کرنے سے بھی نہ مل سکیں جو مماز و زکوٰۃ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے تو کما حقہ پابند ہوں لیکن روزہ اور حج باوجود فرضیت کے ادا نہ کرتے ہوں، لیکن آپ ایسوں کو گن بھی نہیں سکتے جو رمضان آنے پر روزے تو رکھ لیتے ہیں، مگر نماز کے پابند نہیں، یا اگرچہ حج تو انہوں نے کر لیا ہے لیکن زکوٰۃ اور صلہ رحم جیسے حقوق عباد کے معاملے میں وہ سخت کوتاہ کار ہیں۔ الغرض بہت ممکن ہے کہ اسی وجہ سے آنحضرتﷺ نے اس وقت صرف ان ہی چار باتوں کی تلقین پر اکتفا فرمایا ہو۔ واللہ اعلم۔ صحیح مسلم ہی کی اسی حدیث کی دوسری رووایت کے آخر میں ایک فقرہ یہ بھی ہے کہ جب وہ اعرابی چلا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ "اگر یہ مضبوطی سے ان احکام پر عمل کرتا رہا تو یقیناً جنت میں جائے گا"۔ اس حدیث کی روایت میں تین جگہ راوی نے اپنے شک کو ظاہر کیا ہے: ۱۔ ایک یہ کہ ناقہ کی مہار کے لئے اُوپر کے راوی نے "خطام" کا لفظ بولا تھا یا "زمام" کا۔ ۲۔ دوسرے یہ کہ سائل نے آنحضرتﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے "یا رسول اللہ" کہا تھا یا "یا محمد!"۔ ۳۔ تیسرے یہ کہ حضور ﷺ نے اُس کی بابت صحابہؓ سے "لَقَدْ وُفِّقَ" کہا تھا یا "لَقَدْ هُدِى"۔ راوی کے اس اظہارِ شک سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے راویانِ حدیث نقل حدیث و روایت میں کس درجہ محتاط اور خدا ترس تھے، کہ تین جگہ صرف لفظوں میں ان کو شک ہے کہ اوپر کے راوی نے یہ لفظ بولا تھا یا یہ لفظ، تو اپنے اس شک کو بھی ظاہر کر دیا، حالاں کہ تینوں جگہ معنی میں خفیف سی کوئی تبدیلی بھی نہیں ہوتی تھی۔ ف: اس حدیث سے آنحضرتﷺ کی شفقتِ پیغمبرانہ کا بھی کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے، کہ آپ سفر میں ہیں، ناقہ پر سوار چلے جا رہے ہیں (اور ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کا سفر یقیناً کسی دینی مہم ہی کے سلسلے کا سفر ہو گا) اثناء راہ میں ایک بالکل نا آشنا بدوی سامنے آ کر ناقہ کی مُہار پکڑ کے کھڑا ہو جاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ "مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دُور کرنے والی بات بتلاؤ"۔ آپ ﷺ اُس کے اس طرز عمل سے ناراض نہیں ہوتے، بلکہ اُس کی دینی حرص کی ہمت افزائی فرماتے ہیں، اور اپنے رفقاء سفر کو متوجہ کر کے ارشاد فرماتے ہیں، کہ "اس کو اچھی توفیق ملی"۔ پھر اپنے ان رفیقوں کو بھی سائل کی زبان ہی سے اس کا سوال سُنوانے کے لئے اُس سے فرماتے ہیں۔ "ذرا پھر کہو، تم نے کیسے کہا؟" اس کے بعد جواب دیتے ہیں اور آخر میں فرماتے ہیں "دَعِ النَّاقَةَ" (اچھا اب ہماری ناقہ کی مُہار چھوڑ دو) اللہ اکبر! پیغمبری کیا ہے، شفقت و رحمت کا ایک مجسم پیکر ہے۔ (فصلى الله تعالى عليه وسلم سعة رحمته ورافته) مگر یہاں یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ یہ سائل "اعرابی" تھا۔ ع "موسیا آداب دانا دیگر اند"
Top