معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 68
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَتَبَ اللهُ مَقَادِيرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، قَالَ: وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ " (رواه مسلم)
ایمان و اسلام کا خلاصہ اور اس کا عطر
عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار برس پہلے تمام مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی ہیں، اور فرمایا، کہ اس کا عرش پانی پر تھا۔

تشریح
اس حدیث میں چند چیزیں غور طلب ہیں: اول یہ کہ اللہ تعالیٰ کے تقدیر لکھنے سے کیا مراد ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہ تو ہے نہیں، کہ جس طرح ہم انسان ہاتھ میں قلم لے کے کاغذ یا تختی پر کچھ لکھتے ہیں، ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے لکھا ہو، ایسا خیال کرنا اللہ تعالیٰ کی شانِ اقدس میں ناواقفی ہے، در اصل اللہ تعالیٰ کے افعال و صفات کی حقیقت اور کیفتیت کے ادراک سے ہم قاصر ہیں، اور چونکہ اس کے لیے الگ کوئی زبان اور لغت نہیں ہے، اس لئے مجبوراً انہیں الفاظ سے اس کے افعال و صفات کی تعبیر کرتے ہیں جو دراصل ہمارے افعال و صفات کے لئے وضع کئے گئے ہیں، ورنہ اُسکے اور ہمارے افعال و صفات کی حقیقت اور کیفیت میں اتنا ہی فرق ہے، جتنا کہ اس کی عالی ذات اور ہماری ذاتوں میں ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اس حدیث میں جس کتابت تقدیر کا ذکر کیا گیا ہے، اس کی حقیقت اور نوعیت کیا ہے، علاوہ ازیں یہ بھی واقعہ ہے کہ عربی زبان میں کسی چیز کے طے کر دینے اور معین و مقرر کر دینے کو بھی کتابت سے تعبیر کیا جاتا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں اسی معنی کے اعتبار سے روزہ کی فرضیت کو "كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ" سے اور قصاص کے حکم کو "كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ"سے تعبیر کیا گیا ہے، پس اگر حدیث مذکور میں بھی کتابت سے یہی مراد ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار برس پہلے تمام مخلوقات کی تقدیریں معین کیں، اور جو کچھ ہونا ہے اُس کو مقرر فرمایا۔ (۱) اس معنی کا ایک قرینہ یہ بھی ہے، کہ بعض روایات میں بجائے "کُتِبَ" کے "قَدَّرَ" کا لفظ بھی آیا ہے۔ اس موقع پر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے، کہ کتابت تقدیر کے سلسلے کی بعض غیر معتبر روایتوں میں قلم اور لوح وغیرہ سے متعلق جو تفصیلات نقل کی گئی ہیں، وہ اسرائیلیات سے ماخوذ ہیں، رسول اللہ ﷺ کی صحیح احادیث میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔(۲) دوسری بات اس حدیث سے متعلق یہ بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ پچاس ہزار برس سے مراد بہت طویل زمانہ بھی ہو سکتا ہے، عربی زبان اور عربی محاورے میں یہ استعمال شائع ذائع ہے۔ حدیث کے آخر میں فرمایا گیا ہے، کہ: "جس طرح ہماری قوتِ خیالیہ میں ہزاروں چیزوں کی صورتیں، اور ان کے متعلق معلومات جمع رہتی ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عرش کی قوتوں میں سے کسی خاص قوت میں (جس کو ہماری قوتِ خیالیہ کے مشابہ سمجھنا چاہیے) " تمام مخلوقات اور ان کے تمام احوال اور حرکات و سکنات کو، غرض جو کچھ عالم وجود میں آنے والا ہے اس سب کو عرش کی اس قوت میں ثبت فرما دیا، گویا دنیا کے پردے پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ سب عرش کی اس قوت میں اسی طرح موجودہ محفوظ ہے جس طرح ہمارے خیال میں لاکھوں صورتیں اور ان کے متعلق معلومات ہوتے ہیں۔ شاہ صاحبؒ کے نزدیک تمام مخلوقات کی تقدیر لکھنے سے یہی مراد ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
Top