معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 69
عَنِ ابْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ: " أَنَّ خَلْقَ أَحَدِكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا أَوْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَهُ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَهُ، ثُمَّ يُبْعَثُ إِلَيْهِ المَلَكُ فَيُؤْذَنُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، فَيَكْتُبُ: رِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَعَمَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ حَتَّى لاَ يَكُونُ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُ النَّارَ، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الكِتَابُ، فَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا " (رواه البخارى ومسلم)
ایمان و اسلام کا خلاصہ اور اس کا عطر
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے صادق و مصدوق پیغمبر ﷺ نے ہم سے بیان فرمایا: "تم میں سے ہر ایک کا مادہ تخلیق اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس روز تک نطفہ کی شکل میں جمع رہتا ہے (یعنی پہلے چلہ میں کوئی غیر معمولی تغیر نہیں ہوتا، صرف خون میں کچھ غلظت آ جاتی ہے، اس کو "نطفہ" کہا گیا ہے۔ (۱) پھر اس کے بعد اتنی ہی مدت منجمد خون کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے ہی دنوں وہ گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے (اور اسی مدت میں اعضاء کی تشکیل اور ہڈیوں کی بناوٹ بھی شروع ہو جاتی ہے) پھر اللہ تعالیٰ (مندرجہ ذیل) چار باتیں لے کر ایک فرشتہ کو بھیجتا ہے، یہ فرشتہ اس کے اعمال اس کی مدت عمر اور وقت موت، اور س کا رزق لکھتا ہے، اور یہ کہ بدبخت ہے یا نیک بخت، پھر س میں روح ڈالی جاتی ہے۔ پس قسم اُس ذات کی جس کے سوا کوئی عبادت و بندگی کے لائق نہیں، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص جنتیوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر نوشتہ تقدیر آگے آ جاتا ہے، اور وہ دوزخیوں کے عمل کرنے لگتا ہے، اور انجام کار دوزخ میں چلا جاتا ہے اور (اسی طرح کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ) تم میں سے کوئی دوزخیوں کے سے عمل کرنے لگتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر نوشتہ تقدیر آگے آ جاتا ہے اور وہ جنتیوں کے عمل کرنے لگتا ہے اور جنت میں پہنچ جاتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
اس حدیث میں دو مضمون بیان فرمائے گئے یہں، شروع میں تو تخلیق انسانی کے ان چند مرحلوں کا ذکر کا ذکر ہے جس سے انسان نفخ روح تک رحم مادر میں گزرتا ہے، (اور غالباً ان مرحلوں کا ذکر فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا فرشتہ نفخ روح کے وقت پر پیدا ہونے والے انسان کے متعلق لکھتا ہے، جس میں اس کے اعمال، اس کی مدتِ حیات اور وقتِ موت، اور روزی اور نیک بختی یا بد بختی کی تفصیل ہوتی ہے، حدیث کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے، کہ حضور ﷺ کا کاص منشاء اسی نوشتہ کے متعلق یہ بیان فرمانا ہے، کیہ یہ ایسا قطعی اور اٹل ہوتا ہے کہ ایک شخص جو اس نوشتہ میں دوزخیوں میں لکھا ہوتا ہے، بسا اوقات وہ ایک مدت تک جنتیوں کی سی پاکبازانہ زندگی گزارتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ جنت سے بہت ہی قریب ہوتا جاتا ہے لیکن پھر ایک دم اُس کے رویہ میں تبدیلی ہوتی ہے، اور وہ دوزخ میں لے جانے والے بُرے اعمال کرنے لگتا ہے، اور اسی حال میں مر کر بالآخر دوزخ میں چلا جاتا ہے، اور اس کے برعکس ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک آدمی جو فرشتہ کے نوشتہ میں اہل جنت میں لکھا ہوتا ہے، وہ ایک عرصہ تک دوزخیوں کی سی زندگی گزارتا رہتا ہے، اور دوزخ کے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان گویا ایک ہاتھ سے زیادہ فاصلہ نہیں رہتا لیکن پھر ایک دم وہ سنبھل جاتا ہے، اور اہلِ جنت کے اعمالِ صالحہ کرنے لگتا ہے، اور اسی حال میں مر کر جنت میں چلا جاتا ہے۔ اس حدیث کا خاص سبق یہ ہے کہ کسی کو بد اعمالیوں میں مبتلا دیکھ کر اس کے قطعی دوزخی ہونے کا حکم نہ لگانا چاہئے، کیا معلوم زندگی کے باقی حصے میں اس کا رخ اور رویہ کیا ہونے والا ہے، اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آج اعمالِ خیر کی توفیق کسی کو مل رہی ہے تو اس پر اس کو مطمئن نہ ہو جانا چاہئے، بلکہ برابر حسن خاتمہ کے لیے فکر مند رہنا چاہیے۔
Top