معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 72
عَنْ أَنَس قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ العَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ، وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ، أَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهِ، فَيَقُولاَنِ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَّا المُؤْمِنُ، فَيَقُولُ: أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الجَنَّةِ، فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا - قَالَ قَتَادَةُ: وَذُكِرَ لَنَا: أَنَّهُ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى حَدِيثِ أَنَسٍ - قَالَ: وَأَمَّا المُنَافِقُ وَالكَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولُ: لاَ أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ، فَيُقَالُ: لاَ دَرَيْتَ وَلاَ تَلَيْتَ، وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً، فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ " (رواه البخارى ومسلم واللفظ البخارى)
عالم برزخ (عالمِ قبر)
انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کہ (مرنے کے بعد) بندہ جب اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے، اور اس کے ساتھ (یعنی اس کے جنازے کے ساتھ آنے والے) واپس چل دیتے ہں، (اور ابھی وہ اتنے قریب ہوتے ہیں کہ) ان کی جوتیوں کی چاپ وہ سن رہا ہوتا ہے تو اسی وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، وہ اس کو بٹھاتے ہیں، پھر اس سے پوچھتے ہیں کہ تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ ان کا یہ سوال رسول اللہ ﷺ کے متعلق ہوتا ہے۔ پس جو سچا مؤمن ہوتا ہے، وہ کہتا ہے کہ (میں گواہی دیتا رہا ہوں، اور اب بھی) میں گواہی دیتا ہوں، کہ وہ اللہ کےبندے، اور اس کے رسولِ برحق ہیں، (یہ جواب سن کے) فرشتے اس سے کہتے ہیں (ایمان نہ لانے کی صورت میں) دوزخ میں جو تمہاری جگہ ہونے والی تھی، ذرا اس کو دیکھ لو، اب اللہ نے بجائے اس کے، تمہارے لئے جنت میں ایک جگہ عطا فرمائی ہے (اور وہ یہ ہے) اس کو بھی دیکھ لو (یعنی دوزخ اور جنت کے دونوں مقام اس کے سامنے کر دئیے جائیں گے) چناں چہ وہ دونوں کو ایک ساتھ دیکھے گا۔ اور جو منافق اور کافر ہوتا ہے، تو اسی طرح (مرنے کے بعد) اس سے بھی (رسول اللہ ﷺ) کے متعلق پوچھا جاتا ہے کہ اس شخص کے بارےمیں تم کیا کہتے تھے؟ (اور اس کو کیا اور کیسا سمجھتے تھے؟) پس وہ منافق اور کافر کہتا ہے کہ میں ان کے بارے میں خود تو کچھ جانتا نہیں، دوسرے لوگ جو کہا کرتے تھے، وہی میں بھی کہتا تھا(اس کے اس جواب پر) اس کو کہا جائے گا، کہ تو نے نہ تو خود جانا اور نہ (جان کر ایمان لانے والوں کی) تو نے پیروی کی، اور لوہے کے گرزوں سے اس کو مارا جائے گا، جس سے وہ اس طرح چیخے گا کہ جن و انس کے علاوہ اس کے آس پاس کی ہر چیز اس کا چیخنا سنے گی۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
پہلی حدیث سے معلوم ہوا تھا، کہ مرنے والے سے فرشتے تین سوال کرتے ہیں، اور اس دوسری حدیث میں صرف ایک ہی سوال کا ذکر کیا گیا ہے، اصل بات یہ ہے کہ یہ سوال چوں کہ باقی دونوں سوالوں پر بھی حاوی ہے، اور اس کے جواب سے ان دونوں سوالوں کا جواب بھی معلوم ہو جاتا ہے، اس لئے بعض حدیثوں میں صرف اسی ایک سوال کا ذکر کر دیا جاتا ہے، قرآن و حدیث کا طریق بیان یہی ہے کہ ایک واقعہ کو کبھی تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے اور کبھی صرف اس کے بعض اجزاء ہی بیان کر دئیے جاتے ہیں۔ یہ اصولی بات پہلے بھی ذکر کی گئی ہے، اور اب پھر اس کو یاد دلایا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں تصنیفی مقالات نہیں ہیں، بلکہ عموماً مجلسی ارشادات ہیں، اور کسی معلم اور مربی کے مجلسی ارشادات میں ایسا ہونا کہ کبھی ایک بات کو پوری تفصیل سے بیان کیا جائے، اور کبھی اس کے صرف بعض اجزاء کا ذکر کر دیا جائے، بالکل صحیح اور فطری بات ہے۔ حضرت انس والی اس دوسری حدیث میں اس سوال جواب کے سلسلے میں قبر کا لفظ بھی آیا ہے اور اسی طرح بعض اور حدیثوں میں بھی قبر کا ذکر ہے، اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ سوال و جواب صرف ان ہی مُردوں سے مخصوص ہے، جو قبروں میں دفن ہوتے ہیں، دراصل قبر کا ذکر ان حدیثوں میں صرف اس لئے کر دیا گیا ہے کہ وہاں مُردوں کو قبروں ہی میں دفن کرنے کا عام رواج تھا، اور لوگ صرف اسی طریقے کو جانتے تھے، ورنہ اللہ کے فرشتوں کی طرف سے یہ سوال و جواب ہر مُردے والے سے ہوتا ہے، خواہ اس کا جسم قبر میں دفن کیا جائے، خواہ دریا میں بہایا جائے، خواہ آگ میں جلایا جائے، خواہ گوشت خور جانوروں کے پیٹ میں چلا جائے۔ اور جیسا کہ اوپر بتلایا جا چکا ہے یہ سب کچھ براہ راست اور اصلی طور سے روح کے ساتھ ہوتا ہے اور جسم خواہ کہیں ہو، اور کسی حال میں ہو، وہ تبعاً اس سے متاثر ہوتا ہے، اور خواب کی مثال اس کے سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ اور خواب ہی کی مثال سے اس شبہ کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی مردہ دو چار دن تک ہمارے سامنے پڑا رہتا ہے اور اس سوال و جواب کی آواز اس کی لاش سے کوئی نہیں سنتا، اور نہ اس پر عذاب یا ثواب کا کوئی اثر معلوم ہوتا ہے۔ پس یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ خواب میں ایک آدمی پر سب کچھ گذر جاتا ہے، وہ بات چیت کرتا ہے،کھاتا ہے، پیتا ہے، لیکن اس کے برابر والوں کو کچھ بھی نہیں نظر آتا۔ اسی قسم کے عامیانہ اور جاہلانہ شبہوں میں سے قبر کے اس سوال و جواب پر ایک شبہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ قبر میں جانے کے لئے جب کوئی اور راستہ اور کوئی چھوٹے سے چھوٹا روزن بھی نہیں ہوتا، تو فرشتے اس میں جاتے کس طرح ہیں؟ یہ شبہ دراصل ان حقیقت ناشناسوں کو ہوتا ہے جو فرشتوں کو شاید اپنی طرح گوشت پوست سے بنی ہوئی مادی مخلوق سمجھتے ہیں، اصل واقعہ یہ ہے کہ فرشتوں کے کہیں پہنچنے کے لئے دروازے یا کھڑکی کی ضرورت نہیں، ہماری نگاہیں یا آفتاب کی شعاعیں جس طرح شیشوں میں سے نکل جاتی ہیں اسی طرح فرشتے اپنے وجود کی لطافت اور اللہ کی دی ہوئی قدرت سے پتھروں میں سے بھی پار ہو جاتے ہیں۔ سبحانہ تعالیٰ شانہ۔
Top