معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 78
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: بَيْنَا رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ، عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ وَنَحْنُ مَعَهُ، إِذْ حَادَتْ بِهِ فَكَادَتْ تُلْقِيهِ، وَإِذَا أَقْبُرٌ سِتَّةٌ أَوْ خَمْسَةٌ فَقَالَ: «مَنْ يَعْرِفُ أَصْحَابَ هَذِهِ الْأَقْبُرِ؟» فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا، قَالَ: فَمَتَى مَاتَ هَؤُلَاءِ؟ " قَالَ: مَاتُوا فِي الْإِشْرَاكِ، فَقَالَ: «إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا، فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا، لَدَعَوْتُ اللهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ» ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: «تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ» قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، فَقَالَ: «تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ» قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، قَالَ: «تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنَ الْفِتَنِ، مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ» قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، قَالَ: «تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ» قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ (رواه مسلم)
عالم برزخ (عالمِ قبر)
حضرت زید بن ثابت انصاری سے روایت ہے کہ ایک دفعہ جب کہ رسول اللہ ﷺ اپنی خچری پر سوار قبیلہ بنی نجار کے ایک باغ میں سے گزر رہے تھے، اچانک آپ کی خچری راستے سے ہٹی اور ٹیڑھی ہوئی (اور اس کی ایسی حالت ہوئی) کہ قریب تھا کہ آپ کو گرا دے، اچانک نظر پڑی تو دیکھا کہوہاں چھ یا پانچ قبریں ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان قبر کے مردوں سے کون واقف ہے؟ (یعنی تم میں کوئی ہے جو ان لوگوں کو جانتا ہو، جو ان قبروں میں مدفون ہیں) ساتھیوں میں سے ایک شخص نے کہا: میں جانتا ہوں، آپ نے فرمایا یہ لوگ کس زمانے میں مرے تھے؟ اس شخص نے عرض کیا: زمانہ شرک میں۔ آپ نے فرمایا: یہ لوگ اپنی قبروں میں عذاب میں مبتلا ہیں، اگر یہ خوف کہ تم مردوں کو دفن نہ کر سکو گے، تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ قبر کے عذاب میں جتنا کچھ میں سن رہا ہوں وہ اس میں سے کچھ تم کو بھی سُنا دے۔ یہ فرمانے کے بعد آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور فرمایا: (دوزخ کے عذاب سے اللہ سے پناہ مانگو: سب کی زبان سے نکلا: ہم دوزخ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔ سب نے کہا: ہم قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، آپ نے فرمایا: سب فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو، ظاہری فتنوں سے بھی، اور باطنی فتنوں سے بھی۔ سب نے کہا: ہم سب ظاہری و باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ آپ نے فرمایا، کہ: دجال کے (عظیم ترین) فتنے سے اللہ کی پناہ مانگو۔ سب نے کہ: "ہم دجالی فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں"۔ (مسلم)

تشریح
اس سلسلہ کی بعض حدیثوں سے پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے برزخ (قبر) کے عذاب کو جن و انس سے مخفی رکھا ہے، اُن کو اس کا بالکل پتہ نہیں چلتا، لیکن ان کے علاوہ دوسری مخلوقات کو اس کا ادراک و احساس کچھ ہوتا ہے، اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ بنی نجار کے اس باغ میں جن لوگوں کی وہ چند قبریں تھیں ان پر جو عذاب ہو رہا تھا، رسول اللہ ﷺ کے اصحاب و رفقاء کو اگرچہ اس کا کوئی احساس نہیں ہوا۔ لیکن جس خچری پر آپ سوار تھے، اس کو اس کا احساس ہوا اور اس پر اثر پڑا۔ اس کی حکمت ظاہر ہے، مرنے والوں پر مرنے کے بعد جو کچھ گذرتا ہے، اگر ہم سب بھی اس کو دیکھ یا سن لیا کرتے، تو "ایمان بالغیب" نہ رہتا اور دنیا کا یہ نظام بھی نہ چل سکتا، جس وقت ہمارے سامنے ہمارا کوئی عزیز سخت تکلیف اور مصیبت میں مبتلا ہو، ہم سے اس وقت کوئی کام نہیں ہو سکتا، اگر کہیں قبروں کا عذاب ہم پر منکشف ہو جایا کرتا، تو کسی اور کام کا کیا ذکر، مائیں بچوں بچوں کو دودھ بھی نہ پلا سکتیں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا، کہ ان قبر والوں پر جو عذاب ہو رہا تھا، اس کی وجہ سے جو چیخ پکار ان قبروں میں مچی ہوئی تھی، جس کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ والے صحابہ کرامؓ بالکل نہیں سن رہے تھے، خود آپ اس کو سن رہے تھے۔ یہ ایسا ہی تھا جیسا کہ وحی کا فرشتہ جب وحی لے کر آتا تھا، تو بسا اوقات صحابہ کرامؓ بھی اس وقت آپ کے قریب ہوتے تھے، لیکن آنے والے فرشتے کو ان کی آنکھیں عام طور سے نہیں دیکھ سکتی تھیں، نہ وہ اس کی آواز سنتے تھے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ اس کو دیکھتے اور اس کی آواز سنتے تھے، اہل مکاشفہ تو اس صورت حال کو بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں، لیکن ہم جیسے عام بھی اس کو خواب والی مثال ہی سے کچھ سمجھ سکتے ہیں۔ (۱) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ: لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا، لَدَعَوْتُ اللهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ (یعنی اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ تم مردوں کو دفن نہ کر سکو گے، تو میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعاکرتا، کہ قبر کے عذاب میں سے جتنا کچھ میں سن رہا ہوں، اس میں سے کچھ وہ تم کو بھی سنا دیتے)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قبر کے عذاب کی جو کیفیت اللہ تعالیٰ نے مجھ پر منکشف فرما دی ہے، اور عذاب اور عذاب دئیے جانے والوں کی چیخ و پکار، جو میں سن رہا ہوں، اگر اللہ تعالیٰ وہ تمہیں بھی سنوا دے، تو اس کا خطرہ ہے کہ تمہیں موت سے اتنی دہشت ہو جائے کہ مردوں کو دفن و کفن کا انتظام بھی نہ کر سکو، اس لیے میں اللہ سے دعا نہیں کرتا، کہ وہ تمہیں بھی سنا دے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو تعوذ (اللہ سے پناہ مانگنے) کی طرف متوجہ کیا۔ اس میں اس کی تعلیم ہے کہ مومنین کو چاہیے کہ وہ قبر کے عذاب کو جاننے اور دیکھنے کی فکر کے بجائے اس سے بچنے کی فکر کریں، اور اس سے۔۔۔ اور ہر قسم کے عذاب اور فتنہ سے بچانے والا بس اللہ ہی ہے، لہذا اس سے برابر پناہ مانگتے رہیں، دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگیں عذابِ قبر سے پناہ مانگیں، ظاہر و باطن کے سب فتنوں سے پناہ مانگیں خاص کر دجال کے عظیم فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگتے رہیں۔ اور کفر و شرک اور ان سب فتنوں اور معصیتوں سے بچنے کی فکر رکھیں جو عذاب کو لانے والے ہیں۔ اَللّٰهُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَنَعُوْذُبِكَ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ۔
Top