معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 7
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ حِينَ بَعَثَهُ إِلَى اليَمَنِ: «إِنَّكَ سَتَأْتِي قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ، فَإِذَا جِئْتَهُمْ فَادْعُهُمْ إِلَى أَنْ يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، فَإِنْ هُمْ طَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ طَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً، تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ طَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ المَظْلُومِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ» (رواه البخارى ومسلم)
ارکانِ اسلام کی دعوت میں ترتیب و تدریج
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے جب معاذ بن جبلؓ کو یمن کی طرف بھیجا، تو (رخصت کرتے ہوئے) اُن سے فرمایا: "تم وہاں اہلِ کتاب میں سے ایک قوم کے پاس پہنچو گے، پس جب تم اُن کے پاس جاؤ، تو (سب سے پہلے) اُن کو اس کی دعوت دینا، کہ وہ شہادت دیں (یعنی دل و زبان سے قبول کریں) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، پس اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں، اور شہادت ادا کریں، تو پھر تم اُن کو بتلانا، کہ اللہ نے دن رات میں تم پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں؟ پھر جب وہ اس میں بھی تمہاری اطاعت کریں، تو اس کے بعد تم اُن کو بتلانا، کہ اللہ نے تم پر زکوٰۃ بھی فرض کی ہے، جو قوم کے مالداروں سے لی جائے گی، اور اسی کے فقراء و مساکین کو دے دی جائے گی، پھر اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مال لیں، تو پھر (زکوٰۃ وصول کرتے وقت چھانٹ چھانٹ کے) ان کے نفیس نفیس اموال نہ لینا، اور مظلوم کی بد دُعا سے بہت بچنا، کیوں کہ اُس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے"۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
امام بخاری وغیرہ بعض علماء کی تحقیق کے مطابق ۱۰ ؁ھ میں، اور اکثر علماءِ سیر و اہلِ مغازی کے نزدیک ۹ ؁ھ میں، رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تھا، اور رخصت کرتے وقت، اہلِ یمن کو اسلام کی دعوت دینے کے متعلق آپ نے ان کو یہ ہدایات دی تھیں۔۔۔ بعض لوگوں کو اس حدیث میں بھی یہ اشکال ہوا ہے کہ اس میں حضور ﷺ نے صرف نماز اور زکوٰۃ کا ذکر فرمایا، حالانکہ اُس وقت روزہ اور حج کی فرضیت کا حکم بھی آ چکا تھا۔ شارحین نے اپنے اپنے مذاق کے مطابق اس کی مختلف توجیہیں کی ہیں، اس ناچیز کے نزدیک ان میں سب سے زیادہ قرینِ قیاس توجیہ یہ ہے کہ حضرت معاذ کو آپ ﷺ نے جو یہ ہدایت دی، اس سے آپ کا مقصد اسلام کے ان تمام احکام و فرائض کو بتلانا نہ تھا جو اسلام لانے کے بعد ایک مسلمان پر عائد ہوتے ہیں، بلکہ آپ کا مقصد و مطلب صرف یہ تھا کہ دین کی دعوت اور اسلام کی تعلیم میں داعی اور معلم کو جو ترتیب اور تدریج اختیار کرنی چاہئے وہ حضرت معاذؓ کو بتلا دیں، اوعر وہ یہ ہے کہ ایک دم سارے اسلامی احکام و مطالبات اور شریعت کے تمام اوامر و نواہی لوگوں کے سامنے نہ رکھے جائیں، اس صورت میں اسلام کو قبول کرنا اُن کے لئے بڑا مشکل ہو گا، بلکہ سب سے پہلے اُن کے سامنے توحید و رسالت کو پیش کیا جائے، جب وہ اس کو مان لیں تو انہیں بتلایا جائے کہ ا للہ تعالیٰ جو ہمارا اور تمہارا واحد رَب اور لا شریک مالک و مولیٰ ہے، اس نے ہم سب پر پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے، پھر جب وہ اس کو مان لیں، تو ان کو بتلایا جائے، کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے مالوں میں زکوٰۃ بھی فرض کی ہے، جو قوم کے مالداروں سے وصول کی جائے گی اور اُس کے حاجت مند طبقہ میں تقسیم کر دی جائے گی۔ بہر حال حضرت معاذؓ کو یہ ہدایت دینے سے حضور ﷺ کا مقصد دعوت و تعلیم میں ترتیب و تدریج کا حکیمانہ اصول ان کو بتلانا تھا، باقی اسلام کے ضروری احکام اور ارکان حضرت معاذؓ کو معلوم ہی تھے، اس لئے اس موقع پر سب کے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ علاوہ ازیں اس میں بھی شبہ نہیں، کہ اسلام کے ارکان و فرائض میں نماز اور زکوٰۃ ہی سب سے زیادہ اہم ہیں، اور قرآن مجید میں انہی دو پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے، کہ جو شخص ان دو کو ادا کرنے لگے، اُس کے لئے باقی تمام ارکان و فرائض کا ادا کرنا آسان ہو جاتا ہے، جیسا کہ تجربہ اور مشاہدہ بھی ہے، نیز نفسِ انسانی کی طبیعت میں ان دونوں کو بہت خاص دخل ہے۔ اور غالباًٍ اسی واسطے کتاب و سنت میں بہت سے مقامات پر صرف ان ہی دو رکنوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔۔۔ مثلاً سورہ بینہ میں فرمایا گیا:۔ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ اور سورہ توبہ میں فرمایا گیا: فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی یہ حدیث آگے آنے والی ہے:۔ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ , وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ۔۔ پس ان آیات و احادیث میں ارکانِ اسلام میں سے صرف نماز اور زکوٰۃ ہی کے ذکر کی ایک توجیہ یہ بھی ہے۔ واللہ اعلم اسلام کی دعوت و تعلیم کے متعلق یہ ہدایت دینے کے بعد آنحضرتﷺ نے حجرت معاذؓ کو ایک نصیحت فرمائی، کہ جب زکوٰۃ کی وسولی کا وقت آئے، تو ایسا نہ کیا جائے کہ لوگوں کے اموال (مثلاً پیداوار، اور چوپایوں) میں سے بہتر بہتر زکوٰۃ میں لینے کے لئے چھانٹ لئے جائیں، بلکہ جیسا مال ہو اسی کے اوسط سے زکوٰۃ وصول کی جائے۔ سب سے آخری نصیحت آپ نے یہ فرمائی کی دیکھو! مظلوم کی بددُعا سے بچنا (مطلب یہ ہے کہ تم ایک علاقے کے حاکم بن کر جا رہے ہو، دیکھو کبھی کسی پر ظلم اور زیادتی نہ کرنا) کیوں کہ مظلوم کی دُعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے، وہ قبول ہو کے رہتی ہے۔ بترس از آہِ مظلوماں کہ ہنگامِ دُعا کردن اجابت از درحق بہرِ استقبال می آید بلکہ مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے۔ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ مُسْتَجَابَةٌ، وَإِنْ كَانَ فَاجِرًا فَفُجُورُهُ عَلَى نَفْسِهِ مظلوم کی دُعا قبول ہی ہوتی ہے، اگرچہ وہ بدکار بھی ہو، تو اس کی بدکاری کا وبال اس کی ذات پر ہے۔ (فتح و عمدہ) (یعنی فسق و فجور کے باوجود ظالم کے حق میں اُس کی بددعا قبول ہوتی ہے)۔ اور مسند احمد ہی میں حضرت انسؓ کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں:۔ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ مُسْتَجَابَةٌ، وَإِنْ كَانَ كَافِرًا لَيْسَ دُوْنَهُ حِجَابٌ مظلوم کی بددُعا قبول ہوتی ہے، اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو، اس کے لئے کوئی روک نہیں ہے۔ (عمدہ) ف:۔۔۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا، کہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا، اور آُپ کی لائی ہوئی شریعت پر چلنا اگلے پیغمبروں اور اگلی کتابوں کے ماننے والے اہلِ کتاب کے لئے بھی ضروری ہے۔ اور اپنے سابقپ ادیان پر قائم رہنا اب اُن کی نجات کے لئے کافی نہیں۔ ہمارے اس زمانہ میں مسلمان کہلانے والوں میں سے بعض لکھے پڑھے جو اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ "یہود و نصاریٰ جیسی امتیں ان پرانی شریعتوں پر چل کر بھی اللہ کی رضا اور نجات حاصل کر سکتی ہیں اور ان کے لئے شریعتِ اسلام کا اتباع ضروری نہیں"۔ وہ یا تو دین اور اصولِ دین سے جاہل ہیں یا دراصل منافق ہین، آئندہ حدیث میں یہی مسئلہ اور زیادہ صراحت اور وضاحت سے بیان فرمایا گیا ہے۔
Top