معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 92
عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْكُمْ أَحَدٌ إِلَّا سَيُكَلِّمُهُ رَبُّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تُرْجُمَانٌ، فَيَنْظُرُ أَيْمَنَ مِنْهُ فَلاَ يَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ مِنْ عَمَلِهِ، وَيَنْظُرُ أَشْأَمَ مِنْهُ فَلاَ يَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ، وَيَنْظُرُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلاَ يَرَى إِلَّا النَّارَ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ، فَاتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ " (رواه البخارى ومسلم)
اللہ کے حضور میں پیشی اور اعمال کی جانچ
ابن حاتم سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: "(قیامت میں) تم میں سے ہر شخص سے اس کا پروردگار اس طرح بلا واسطہ اور دو بدو کلام فرمائے گا، کہ نہ درمیان میں کوئی ترجمان ہو گا، نہ کوئی پردہ حائل ہو گا (اس وقت بندہ کی یہ کیفیت ہو گی کہ وہ حیرت اور بے بسی سے ادھر اُدھر دیکھے گا)۔ پس جب نظر کرے گا اپنی داہنی جانب، تو سوائے اپنے اعمال کے کچھ اس کو نظر نہ آئے گا، اور ایسے ہی جب نظر آئے گا بائیں جانب تو سوائے اپنے اعمال کے کچھ اسے نظر نہ آئے گا۔ اور جب سامنے نظر دوڑائے گا، تو اپنے رو برو آگ ہی آگ دیکھے گا، پس اے لوگوں! دوزخ کی اس آگ سے بچو، اگرچہ خشک کھجور کے ایک خشک ٹکڑے ہی کے ذریعہ اس سے بچنے کی فکر کرو "۔

تشریح
قرآن مجید میں اور احادیث میں بھی جہاں جہاں قیامت کے حساب اور وہان کے ہولناک منظروں کا اور دوزخ کے لرزہ خیز عذابوں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ اس لئے ہے کہ بندے اس سے خبردار ہو کر اپنے کو اس سے بچانے کی فکر کریں، اس حدیث میں تو آخر میں صراحت کے ساتھ اس مقصد کو بیان بھی فرما دیا گیا ہے لیکنک جن حدیثوں میں اس مقصد کی تصریح نہ بھی کی گئی ہو، ان کا مقصد بھی یہی سمجھنا چاہئے اور اس سلسلہ کی تمام آیات و احادیث سے ہم کو یہی سبق لینا چاہئے۔
Top