معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1373
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّهَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ بِمَكَّةَ، قَالَتْ: فَوَلَدْتُ بِقُبَاءٍ، ثُمَّ «أَتَيْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعْتُهُ فِي حَجْرِهِ، ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَةٍ فَمَضَغَهَا، ثُمَّ تَفَلَ فِي فِيهِ، ثُمَّ حَنَّكَهُ بِالتَّمْرَةِ، ثُمَّ دَعَا لَهُ فَبَرَّكَ عَلَيْهِ» وَكَانَ أَوَّلَ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِي الإِسْلاَمِ. (رواه البخارى ومسلم)
تحنیک اور دعائے برکت
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ وہ ہجرت سے پہلے مکہ میں حمل سے تھیں جب ہجرت کر کے مدینہ آئیں تو قباء میں ان کی ولادت ہوئی اور عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے کہتی ہیں کہ میں بچے کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور میں نے اس کو آپ ﷺ کی گود میں رکھ دیا۔ آپ ﷺ نے چھوہارا منگوایا اور اس کو چبایا پھر اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں دالا اور پھر اس کے تالو پر ملا، پھر اس کے لئے دعا کی اور برکت سے نوازا، اور یہ اسلام میں پہلا بچہ تھا (جو ہجرت کے بعد ایک مہاجر کے گھر پیدا ہوا)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
صحیح بخاری کی اس حدیث کی ایک روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے پیدا ہونے سے مسلمانوں کو خاص کر اس لئے بہت زیادہ خوشی ہوئی تھی کہ یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ یہودیوں نے مسلمانوں پر ایسا جادو کر دیا ہے کہ ان کے بچے پیدا ہی نہ ہوں گے۔ عبداللہ بن زبیرؓ کی پیدائش نے اس کو غلط ثابت کر دیا اور مسلمانوں کے جو دشمن یہ جادو والی بات مشہور کر رہے تھے وہ ذلیل ہوئے۔ کتب حدیث میں "تحنیک" کے بہت سے واقعات مروی ہیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ جب کسی گھرانے میں بچہ پیدا ہو تو چاہئے کہ اللہ کے کسی مقبول اور صالح بندے کے پاس اس کو لے جائیں، اس کے لئے خیر و برکت کی دعائیں بھی کرائیں اور "تحنیک" بھی کرائیں۔ یہ ان سنتوں میں سے ہے جن کا رواج بہت ہی کم رہ گیا ہے۔
Top