معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1374
عَنْ أَبِي بُرَيْدَةَ قَالَ: كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا وُلِدَ لِأَحَدِنَا غُلَامٌ ذَبَحَ شَاةً وَلَطَخَ رَأْسَهُ بِدَمِهَا، فَلَمَّا جَاءَ اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ كُنَّا «نَذْبَحُ شَاةً، وَنَحْلِقُ رَأْسَهُ وَنُلَطِّخُهُ بِزَعْفَرَانٍ» (رواه ابوداؤد)
عقیقہ
حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ہم لوگوں کا یہ دستور تھا کہ جب کسی کے لڑکا پیدا ہوتا و وہ بکری یا بکرا ذبح کرتا اور اس کے خون سے بچے کے سر کو رنگ دیتا، پھر جب اسلام آیا تو (رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت کے مطابق) ہمارا طریقہ یہ ہو گیا کہ ہم ساتویں دن عقیقہ کی بکری یا بکرے کی قربانی کرتے اور بچے کا سر صاف کرا کے اس کے سر پر زعفران لگا دیتے ہیں۔ (سنن ابی داؤد) اور اسی حدیث کی رزین کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کے ساتھ ہم بچے کا نام بھی رکھتے ہیں۔

تشریح
دنیا کی قریب قریب سب ہی قوموں اور ملتوں میں یہ بات مشترکہ ہے بچہ پیدا ہونے کو ایک نعمت اور خوشی کی بات سمجھا جاتا ہے اور کسی تقریب کے ذریعہ اس خوشی کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا بھی ہے اور اس میں ایک بڑی مصلحت یہ ہے کہ اس سے نہایت لطیف اور خوبصورت طریقے پر یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ باپ اس بچے کو اپنا ہی بچہ سمجھتا ہے، اور اس بارے میں اس کو اپنی بیوی پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اس سے بہت سے فتنوں کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ عربوں میں اس کے لئے جاہلیت میں بھی عقیقہ کارواج تھا۔ دستور یہ تھا کہ پیدائش کے چند روز بعد نومولود بچے کے سر کے وہ بال جو وہ ماں کے پیٹ سے لے کے پیدا ہوا ہے صاف کرا دئیے جاتے اور اس دن خوشی میں کسی جانور کی قربانی کی جاتی (جو ملتِ ابراہیمیؑ کی نشانیوں میں سے ہے) رسول اللہ ﷺ نے اصولی طور پر اس کو باقی رکھتے ہوئے بلکہ اس کی ترغیب دیتے ہوئے اس کے بارے میں مناسب ہدایات دیں اور خود عقیقے کر کے عملی نمونہ بھی پیش فرمایا۔
Top