معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1378
عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «كُلُّ غُلَامٍ رَهِينَةٌ بِعَقِيقَتِهِ تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ سَابِعِهِ وَيُحْلَقُ وَيُسَمَّى» (رواه ابوداؤد والترمذى والنسائى)
عقیقہ
حضرت حسن بصری نے حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر بچہ اپنے عقیقہ کے جانور کے عوض رہن ہوتا ہے جو ساتویں دن اس کی طرف سے قربانی کیا جائے اور اس کا سر منڈوا دیا جائے اور نام رکھا جائے۔ (سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی)

تشریح
عقیقہ کے جانور کے عوض بچے کے رہن ہونے کے شارحین نے کئی مطلب بیان کئے ہیں۔ اس عاجز کے نزدیک دل کو زیادہ لگنے والی بات یہ ہے کہ بچہ اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے اور صاحب استطاعت کے لئے عقیقہ کی قربانی اس کا شکرانہ اور گویا اس کا فدیہ ہے۔ جب تک یہ شکریہ پیش پیش نہ کیا جائے اور فدیہ ادا نہ کر دیا جائے وہ بار باقی رہے گا اور گویا بچہ اس کے عوض رہن رہے گا۔ پیدائش ہی کے دن عقیقہ کرنے کا حکم غالبا اس لئے نہیں دیا گیا کہ اس وقت گھر والوں کو زچہ کی دیکھ بھال کی فکر ہوتی ہے علاوہ ازیں اسی دن بچے کا سر صاف کرا دینے میں طبی اصول پر ضرر کا بھی خطرہ ہے۔ ایک ہفتہ کی مدت ایسی ہے کہ اس میں زچہ بھی عموماً ٹھیک ہو جاتی ہے اور بچہ بھی سات دن تک اس دنیا کی ہوا کھا کے ایسا ہو جاتا ہے کہ اس کا سر صاف کرا دینے میں ضرر کا خطرہ نہیں رہتا۔ واللہ اعلم۔ اس حدیث سے اور بعض دوسری احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کے ساتھ ساتویں دن بچے کا نام بھی رکھا جائے۔ لیکن بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بعض بچوں کا نام پیدائش کے دن ہی رکھ دیا تھا اس لئے ساتویں دن سے پہلے نام رکھ دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے، ہاں اگر پہلے نام نہ رکھا گیا ہو تو ساتویں دن عقیقہ کے ساتھ بھی نام رکھ دیا جائے۔ جن حدیثوں میں ساتویں دن عقیقہ کے ساتھ نام رکھنے کا ذکر ہے ان کا مطلب یہی سمجھنا چاہئے۔
Top