معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1390
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ وُلِدَتْ لَهُ ابْنَةٌ، فَلَمْ يُؤْذِهَا، وَلَمْ يُهِنْهَا، وَلَمْ يُؤْثِرْ وَلَدَهُ عَلَيْهَا - يَعْنِي الذُّكُوْرَ - أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهَا الْجَنَّةَ» (رواه احمد والحاكم فى المستدرك)
خاص کر لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کے ہاں لڑکی پیدا ہو، پھر وہ نہ تو اسے کوئی ایذاء پہنچائے اور نہ اس کی توہین اور ناقدری کرے، اور نہ محبت اور برتاؤ میں لڑکوں کو اس پر ترجیح دے (یعنی اس کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرے جیسا کہ لڑکوں کے ساتھ کرتا ہے) تو اللہ تعالیٰ لڑکی کے ساتھ اس حسنِ سلوک کے صلے میں اس کو جنت عطا فرمائے گا۔ (مسند احمد، مستدرک حاکم)

تشریح
آج تک بھی بہت سے علاقوں میں لڑکی کو ایک بوجھ اور مصیبت سمجھا جاتا ہے، اور اس کے پیدا ہونے پر گھر میں بجائے خوشی کے افسردگی اور غمی کی فضاء ہو جاتی ہے۔ یہ حالت تو آج ہے لیکن اسلام سے پہلے عربوں میں تو بےچاری لڑکی کو باعث ننگ و عار تصور کیا جاتا تھا اور اس کا یہ حق بھی نہیں سمجھا جاتا تھا کہ اس کو زندہ ہی رہنے دیا جائے۔ بہت سے شقی القلب خود اپنے ہاتھوں سے اپنی بچی کا گلا گھونٹ کر اس کا خاتمہ کر دیتے تھے، یا اس کو زندہ زمین میں دفن کر دیتے تھے۔ ان کا یہ حال قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ﴿٥٨﴾ يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚأَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ (النحل 59:16) جب ان میں سے کسی کو لڑکی پیدا ہونے کی خبر سنائی جاتی ہے تو وہ دل مسوس کر رہ جاتا ہے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، ان کو منہ نہیں دکھانا چاہتا، اس برائی کی وجہ سے جس کی اسے خبر ملی ہے، سوچتا ہے کیا اس نومولود بچی کو ذلت کے ساتھ باقی رکھے یا اس کو کہیں لے جا کر مٹی میں دبا دے۔ یہ تھا لڑکیوں کے بارے میں ان عربوں کا ظالمانہ رویہ جن میں رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے۔ اس فضا اور اس پس منظر کو پیش نظر رکھ کے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کے مندرجہ ذیل ارشادات پرھئے:
Top