معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1394
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَتَى بِهِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا كَانَ لِي، فَقَالَ «أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَهُ مِثْلَ هَذَا؟» قَالَ: لَا، قَالَ «فَارْجِعْهُ» وِفِى رِوَايَةٍ «أَلَيْسَ يَسُرُّكَ أَنْ يَكُونُوا لَكَ فِي الْبِرِّ وَاللُّطْفِ سَوَاءٌ» قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَلَا إِذًا وِفِى رِوَايَةٍ أعطاني أبي عطية فقالت عمرة بنت رواحة: لا أرضى حتى تشهدَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فأتى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فقال: "إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله ، قال:" أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟ قال: لا، قال: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم قال: فرجع فرد عطيته وِفِى رِوَايَةٍ إنه قال: لا أشهد على جور. " (رواه البخارى ومسلم)
داد و دہش میں مساوات و برابری بھی اولاد کا حق ہے
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ میرے والد مجھے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے (بعض روایات میں ہے کہ گود میں لے کر حاضر ہوئے) اور عرض کیا کہ میں نے اس بیٹے کو ایک غلام ہبہ کر دیا ہے۔ بعض روایات میں بجائے غلام کے باغ ہبہ کرنے کا ذکر ہے، بہرحال آنحضرتﷺ نے ان سے پوچھا: کیا تم نے اپنے سب بچوں کو اتنا ہی اتنا دیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ: نہیں (اوروں کو تو نہیں دیا، صرف اسی لڑکے نعمان کو دیا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا: پھر یہ تو ٹھیک نہیں اور فرمایا کہ: اس کو واپس لے لو۔ اور ایک روایت میں ہے کہ: کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تمہاری سب اولاد یکساں طور پر تمہاری فرمانبردار اور خدمت گزار بنے؟ انہوں نے رض کیا کہ: ہاں! حضرتﷺ یہ تو ضرور چاہتا ہوں! تو آپ ﷺ نے فرمایا پھر ایسا ن کرو (کہ ایک دو دو اور دوسروں کو محروم رکھو) اور نعمان بن بشیرؓ ہی کی ایک دوسری روایت میں (یہی واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ میرے والد نے(میری والدہ کے اصرار پر) میرے لئے کچھ ہبہ کیا تو میری والدہ عمرہ بنت رواحہؓ نے کہا کہ میں جب خوش اور مطمئن ہوں گی جب تم رسول اللہ ﷺ کو اس ہبہ کا گواہ بنا دو گے۔ چنانچہ میرے والد نعمان حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری بیوی عمرہ بنت رواحہ سے میرا جو بچہ (نعمان) ہے میں نے اس کے لئے کچھ ہبہ کیا ہے، تو اس کی ماں نے مجھ سے تاکید کی ہے کہ حضور ﷺ کو اس کا گواہ بنا دوں اور اس طرح حضور ﷺ کی منظوری بھی حاصل کر کے ہبہ کو پکا کر دوں) آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ: کیا تم نے اپنے اور سب بچوں کے لئے بھی اتنا ہبہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں (اوروں کے لئے تو نہیں کیا) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم (یعنی خدا سے ڈرو اور اپنی اولاد کے ساتھ مساوات اور برابری کا سلوک کرو) حضرت نعمان بن بشیرؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے اس فرمانے پر والد صاحب نے رجوع کر لیا اور ہبہ واپس لے لیا۔ اور ایک روایت میں ہے: حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ: میں بےانصافی کے معاملہ کا گواہ نہیں بن سکتا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے بارے میں یہ بھی ہدایت فرمائی ہے کہ داد و دہش میں سب کے ساتھ انصاف اور برابری کا برتاؤ کیا جائے یہ نہ ہو کہ کسی کو زیادہ نوازا جائے اور کسی کو محروم رکھا جائے یا کم دیا جائے۔ یہ چیز بذات خود بھی مطلوب ہے اور اس عدل و انصاف کا بھی تقاضا ہے جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے۔ اس کے علاوہ اس میں یہ بھی حکمت و مصلحت ہے کہ اگر اولاد میں سے کسی کو زیادہ نوازا جائے اور کسی کو کم تو ان میں باہم بغض و حسد پیدا ہو گا جو دین اور تقوے کے لئے تباہ کن اور ہزار فتنوں کی جڑ ہے۔ نیز اولاد میں جس کے ساتھ ناانصافی ہو گی اس کے دل میں باپ کی طرف سے میل آئے گا اور شکایت کدورت پیدا ہو گی اور ظاہر ہے کہ اس کا انجام کتنا خراب ہو گا۔ ان سب وجوہ سے رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں سخت تاکیدیں فرمائی ہیں اور اس رویہ کو ایک طرح کا ظلم قرار دیا ہے۔ اس باب میں مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے: تشریح ..... جیسا کہ ظاہر ہے اس حدیث میں اس بات سے ممانعت فرمائی گئی ہے اور اس کو جور یعنی بےانصافی قرار دیا گیا ہے کہ اولاد میں سے کسی کے ساتھ داد و دہش میں ترجیحی سلوک کیا جائے۔ بعض فقہاء نے اس کو حرام تک کہا ہے لیکن اکثر فقہاء نے اور ائمہ اربعہ میں امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ نے (بعض دوسرے دلائل اور قرائن کی بناء) پر اس کو حرام تو نہیں، لیکن مکروہ اور سخت ناپسندیدہ قرار دیا ہے مگر واضح رہے کہ یہ حکم اسی صورت میں ہے جب کہ ترجیحی سلوک کسی ایسی وجہ کے جو شرعاً معتبر ہو، لیکن اگر کوئی ایسی وجہ موجود ہو تو پھر اس وجہ کے بقدر ترجیحی سلوک درست ہو گا۔ مثلاً اولاد میں سے کسی کی صحت مستقل طور پر خراب ہے اور دوسرے بھائیوں کی طرح معاشی جدوجہد نہیں کر سکتا تو اس کے ساتھ خصوصی سلوک عدل و انصاف کے خلاف نہ ہو گا بلکہ ایک درجہ میں ضروری اور باعث اجر ہو گا۔ اسی طرح اگر اولاد میں سے کسی نے اپنے کو دین و ملت کی خدمت میں اس طرح لگا دیا ہے کہ معاشی جدو جہد میں زیادہ حصہ نہیں لے سکتا تو اس کےساتھ بھی مناسب حد تک خصوصی سلوک جائز ہے بلکہ باعث اجر ہو گا۔ علیٰ ہذا اگر کسی ایک بھائی کے ساتھ خصوصی اور ترجیحی سلوک پر دوسرے بھائی رضامند ہوں تب بھی یہ جائز ہو گا۔
Top