معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1401
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُجَاهِدُ؟ قَالَ: «أَلَكَ أَبَوَانِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ» (رواه ابوداؤد)
ماں باپ کی خدمت بعض حالات میں ہجرت اور جہاد سے بھی مقدم
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں۔ آپ ﷺ نے پوچھا کیا تمہارے ماں باپ ہیں؟ اس نے کہا۔ ہاں ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر ان کی خدمت اور راحت رسانی میں جدو جہد کرو۔ یہی تمہارا جہاد ہے۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
غالباً رسول اللہ ﷺ پریہ بات منکشف ہو گئی تھی یا کسی وجہ سے اس کے بارے میں شبہ ہو گیا تھا کہ اس آدمی کے ماں باپ اس کی خدمت کے محتاج ہیں، اور یہ ان کو چھوڑ کے ان کی اجازت کے بغیر جہاد کے لئے آ گیا ہے، اس لئے آپ ﷺ نے اس کو یہ حکم دیا کہ وہ گھر واپس جا کر ماں باپ کی خدمت کرے، کیوں کہ ایسی حالت میں اس کے لئے ماں باپ کی خدمت مقدم ہے۔ اس حدیث سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہو گا کہ جس کسی کے ماں باپ ہوں وہ جہاد اور دین کی کسی خدمت کے لئے کبھی گھر سے باہر نہ نکلے، اور صرف وہی لوگ جہاد میں اور دین کی خدمت میں لگیں جن کے ماں باپ نہ ہوں۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جو صحابہ کرام ؓ جہاد کرتے تھے اور ان میں بڑی تعداد انہی کی ہوتی تھی جن کے ماں باپ زندہ ہوتے تھے۔
Top