معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1405
عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلاً أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أَصَبْتُ ذَنْبًا عَظِيمًا فَهَلْ لِي تَوْبَةٌ؟ قَالَ: هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: هَلْ لَكَ مِنْ خَالَةٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَبِرَّهَا. (رواه الترمذى)
ماں کی خدمت بڑے سے بڑے گناہ کی معافی کا ذریعہ
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ: حضرت! میں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے، تو کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے (اور مجھے معافی مل سکتی ہے) آپ ﷺ نے پوچھا: تمہاری ماں زندہ ہے؟ اس نے عرض کیا کہ: ماں تو نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو کیا تمہاری کوئی خالہ ہے؟ اس نے عرض کیا کہ: ہاں خالہ موجود ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو اس کی خدمت اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو (اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے تمہاری توبہ قبول فرما لے گا اور تمہیں معاف فرما دے گا)۔ (جامع ترمذی)

تشریح
توبہ کیا ہے؟ گناہ پر دل سے نادم و پشیمان ہو کر اللہ سے معافی مانگنا، تا کہ اللہ کے غضب اور اس عذاب سے بچ جائے جس کا وہ گناہ کی وجہ سے مستحق ہو چکا ہے، اور توبہ کی قبولیت یہ ہے کہ اللہ پاک اس کو معاف فرما دے اور اس سے راضی ہو جائے۔ یوں تو سارے ہی اعمال صالحہ میں یہ خاصیت ہے کہ وہ گناہوں کے گندے اثرات کو مٹاتے ہیں اور اللہ کی رجا و رحمت کو کھینچتے ہیں (إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ) لیکن بعض اعمال صالحہ اس بارے میں معمولی امتیازی شان رکھتے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ماں باپ کی خدمت اور اسی طرح خالہ اور نانی کی خدمت بھی انہی اعمال میں سے ہے جن کی برکت سے اللہ تعالیٰ بڑے بڑے گناہگاروں اور سیاہ کاروں کی توبہ قبول فرما لیتا ہے اور ان سے راضی ہو جاتا ہے۔
Top