معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1415
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الرَّحِمَ شَجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: مَنْ وَصَلَكِ وَصَلْتُهُ، وَمَنْ قَطَعَكِ قَطَعْتُهُ " (رواه البخارى)
دوسرے اہل قرابت کے حقوق اور صلہ رحمی کی اہمیت
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: رحم (یعنی حق قرابت) مشتق ہے رحمن سے (یعنی خداوند رحمٰن کی رحمت کی ایک شاخ ہے اور اس نسبت سے) اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا کہ جو تجھے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا، اور جو تجھے توڑے گا میں اس کو توڑوں گا۔ (صحیح بخاری)

تشریح
اسلامی تعلیم میں والدین کے علاوہ دوسرے اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی پر بھی بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اور "صلہ رحمی" اس کا خاص عنوان ہے۔ قرآن مجید میں جہاں والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی گئی ہے وہیں "وَذِى الْقُرْبَى" فرما کر دوسرے اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوقِ قرابت کی ادائیگی کی بھی وصیت فرمائی گئی ہے۔ ابھی چند صفحے پہلے صحیح بخاری و صحیح مسلم کے حوالہ سے ایک سائل کے جواب میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد گزر چکا ہے کہ: خدمت اور حسن سلوک کا سب سے پہلا حق تم پر تمہاری ماں کا ہے، اس کے بعد باپ کا، اس کے بعد درجہ بدرجہ دوسرے اہلِ قرابت کا۔ اب یہاں چند وہ حدیثیں اور پڑھ لیجئے جن میں صلہ رحمی کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات بیان فرمائے گئے ہیں، یا اس کے برعکس قطع رحمی کے برے انجام سے خبردار کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسانوں کی باہم قرابت اور رشتہ داری کے تعلق کو اللہ تعالیٰ کے اسم پاک رحمن سے اور اس کی صفت رحمت سے خاص نسبت ہے اور وہی اس کا سرچشمہ ہے، اور اسی لیے اس کا عنوان رحم مقرر کیا گیا ہے۔ اس خصوصی نسبت ہی کی وجہ سے عنداللہ اس کی اتنی اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ جو صلہ رحمی کرے گا (یعنی قرابت اور رشتہ داری کے حقوق ادا کرے گا، اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا) اس کو اللہ تعالیٰ اپنے سے وابستہ کر لے گا، اور اپنا بنا لے گا، اور جو کوئی اس کے برعکس قطع رحمی کا رویہ اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سے کاٹ دے گا اور دور اور بے تعلق کر دے گا۔ اسی ایک حدیث سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم میں صلہ رحمی کی (یعنی رشتہ داروں اور اہلِ قرابت کے ساتھ حسن سلوک کی) کتنی اہمیت ہے، اور اس میں کوتاہی کتنا سنگین جرم اور کتنی بڑی محرومی ہے۔ آگے درج ہونے والی حدیثوں کا مضمون بھی اس کے قریب ہی قریب ہے۔
Top