معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1420
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أعظم الناس حقا على المرأة زوجها، وأعظم الناس حقا على الرجل أمه. (رواه الحاكم فى المستدرك)
میاں بیوی کے باہمی حقوق اور ذمہ داریاں: بیوی پر سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہے
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت پر سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہے اور مرد پر سب سے بڑا حق اس کی ماں کا ہے۔ (مستدرک حاکم)

تشریح
انسانوں کے باہمی تعلقات میں ازدواجی تعلق کی جو خاص نوعیت اور اہمیت ہے اور اس سے جو عظیم مصالح اور منافع وابستہ ہیں وہ کسی وضاحت کے محتاج نہیں، نیز زندگی کا سکون اور قلب کا اطمینان بڑی حد تک اسی کی خوشگواری اور باہمی الفت و اعتماد پر موقوف ہے۔ پھر جیسا کہ ظاہر ہے اس کا خاص مقصد یہ ہے کہ فریقین کو پاکیزگی کے ساتھ زندگی کی وہ مسرتیں اور راحتیں نصیب ہوں جو اس تعلق ہی سے حاصل ہو سکتی ہیں اور آدمی آوارگی اور پراگندگی سے محفوظ رہ کر زندگی کے فرائض و وظائف ادا کر سکے اور نسلِ انسانی کا وہ تسلسل بھی انسانی عظمت اور شرف کے ساتھ جاری رہے جو اس دنیا کے خالق کی مشیت ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ مقصد بھی اسی صورت میں بہتر طریقے پر پورے ہو سکتے ہیں جبکہ فریقین میں زیادہ سے زیادہ محبت و یگانگت اور تعلق میں زیادہ سے زیادہ خوشگواری ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے میاں بیوی کے باہمی حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں جو ہدایات دی ہیں ان کا خاص مقصد یہی ہے کہ یہ تعلق فریقین کے لئے زیادہ سے زیادہ خوش گوار اور مسرت و راحت کا باعث ہو، دل جڑے رہیں اور وہ مقاصد جن کے لئے یہ تعلق قائم کیا جاتا ہے بہتر طریقے سے پورے ہوں۔ اس باب میں آنحضرتﷺ کی تعلیم و ہدایت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیوی کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے لئے سب سے بالاتر سمجھے، اس کی وفادار اور فرمانبردار رہے، اس کی خیر خواہی اور اضا جوئی میں کمی نہ کرے، اپنی دنیا اور آخرت کی بھلائی اس کی خوشی سے وابستہ سمجھے۔ اور شوہر کو چاہئے کہ وہ بیوی کو اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت سمجھے، اس کی قدر اور اس سے محبت کرے، اگر اس سے غلطی ہو جائے تو چشم پوشی کرے، صبر و تحمل و دانش مندی سے اس کی اصلاح کی کوشش کرے، اپنی استطاعت کیحد تک اس کی ضروریات اچھی طرح پوری کرے، اس کی راحت رسانی اور دل جوئی کی کوشش کرے۔ ان تعلیمات کی صحیح قدر و قیمت سمجھنے کے لئے اب سے قریبا ۱۴۰۰ سو سال پہلے پوری انسانی دنیا اور خاص کر عربوں کے اس ماحول کو سامنے رکھنا چاہئے جس میں بےچاری بیوی کی حیثیت ایک خرید کردہ جانور سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی اور اس غریب کا کوئی حق نہ سمجھا جاتا تھا۔ اس مختصر تمہید کے بعد اس سلسلہ کے رسول اللہ ﷺ کے ارشادات پڑھئے:
Top