معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1424
عَنْ جَابِرٍ (فى حديث طويل فى قصة حجة الوداع قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فى خطبته يوم عرفة) اتَّقُوا اللهَ فِي النِّسَاءِ، فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللهِ، وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ. (رواه مسلم)
بیویوں کے حقوق اور ان کی رعایت و مدارات کی تاکید
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ (حجۃ الوداع میں یوم عرفہ کے خطبہ میں رسول اللہ ﷺ نے یہ ہدایت بھی دی) لوگو! اپنی بیویوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، تم نے ان کو اللہ کیامان کے ساتھ اپنے عقد میں لیا ہے۔ اور اسی اللہ کے کلمہ اور حکم سے وہ تمہارے لئے حلال ہوئی ہیں۔تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ جس کا (گھر میں آنا اور) تمہارے بستروں پر بیٹھنا تمہیں ناپسند ہو وہ اس کو آ کر وہاں بیٹھنے کا موقع نہ دیں، پس اگر وہ ایسی غلطی کریں تو ان کو (تنبیہ و تادیب کے طور پر) تم سزا دے سکتے ہو جو زیادہ سخت نہ ہو، اور تمہارے ذمہ مناسب طریقے پر ان کے کھانے کپڑے (وغیرہ ضروریات) کا بندوبست کرنا ہے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں سب سے پہلی بات تو یہ فرمائی گئی ہے کہ مرد جو عورتوں کے بااختیار اور صاحب امر سربراہ ہیں وہ اپنی اس سربراہی کو خدا کے مواخذہ اور محاسبہ سے بےپروا ہو کر عورتوں پر استعمال نہ کریں، وہ ان کے معاملہ میں خدا سے ڈریں اور یاد رکھیں کہ ان کے اور ان کی بیویوں کے رمیان خدا ہے، اسی کے حکم اور اسی کے مقرر کئے ہوئے ضابطہ نکاح کے مطابق وہ ان کی بیوی بنی ہیں اور ان کے لئے حلال ہوئی ہیں اور وہ اللہ کی امان میں ان کی ماتحت اور زیرِ دست بنائی گئی ہیں، یعنی ان کی بیوی بن جانے کے بعد ان کو اللہ کی امان اور پناہ حاصل ہے۔اگر شوہر ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کریں گے تو اللہ کی دی ہوئی امان کو توڑیں گے اور اس کے مجرم ہوں گے۔ "أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللهِ" کا یہی مطلب ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے اس جملہ نے بتایا کہ جب کوئی عورت اللہ کے حکم کے مطابق کسی مرد سے نکاح کر کے اس کی بیوی بن جاتی ہے تو اس کو اللہ کی ایک خاص امان حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ عورتوں کے لئے کتنا بڑا شرف ہے اور اس میں ان کے سربراہ شوہروں کو کتنی سخت آگاہی ہے کہ وہ یہ بات یاد رکھیں کہ ان کی بیویاں اللہ کی امان میں ہیں۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ شوہروں کا بیویوں پر یہ حق ہے کہ جن مردوں یا عورتوں کا گھر میں آنا اور بیویوں سے بات چیت کرنا انہیں پسند نہ ہو بیویاں ان کو گھر میں آنے کی اجازت نہ دیں۔ " وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ " کا یہی (1) مطلب ہے۔ آگے فرمایا گیا ہے کہ اگر وہ اس کی خلاف ورزی کریں تو تم مردوں کو ان کے سربراہ کی حیثیت سے حق ہے کہ ان کی اصلاح اور تنبیہ کے لئے مناسب سمجھیں تو ان کو سزا دیں، لیکن صراحت کے ساتھ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ یہ سزا سخت نہ ہو "غَيْرَ مُبَرِّحٍ" کا یہی مطلب ہے۔ آخر میں فرمایا گیا ہے کہ بیویوں کا شوہر پر یہ خاص حق ہے کہ وہ ان کو کھانے، کپڑے وغیرہ کی ضروریات اپنی حیثیت اور معاشرے کے دستور کے مطابق پوری کریں، اس معاملہ میں بخل و کنجوسی سے کام نہ لیں۔ "بِالْمَعْرُوفِ" کا یہی مطلب ہے۔
Top