معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1432
عَنْ عَائِشَةُ قَالَتْ: «وَاللهِ رَأَيْتُ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُومُ عَلَى بَابِ حُجْرَتِي، وَالْحَبَشَةُ يَلْعَبُونَ بِحِرَابِهِمْ، فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَسْتُرُنِي بِرِدَائِهِ، لِكَيْ أَنْظُرَ إِلَى لَعِبِهِمْ، ثُمَّ يَقُومُ مِنْ أَجْلِي، حَتَّى أَكُونَ أَنَا الَّتِي أَنْصَرِفُ، فَاقْدِرُوا قَدْرَ الْجَارِيَةِ الْحَدِيثَةِ السِّنِّ، حَرِيصَةً عَلَى اللهْوِ» (رواه البخارى ومسلم)
حضور ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو خود کھیل دکھایا
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے، بیان کرتی ہیں: خدا کی قسم! میں نے یہ منظر دیکھا ہے کہ (ایک روز) حبشی لوگ مسجد میں نیزہ ماری کا کھیل کھیل رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ مجھے ان کا کھیل دکھانے کے لئے میرے لئے اپنی چادر کا پردہ کر کے میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہو گئے (جو مسجد ہی میں کھلتا تھا) میں آپ کے کاندھے اور کان کے درمیان سے ان کا کھیل دیکھتی رہی، آپ میری وجہ سے مسلسل کھڑے رہے، یہاں تک کہ (میرا جی بھر گیا اور) میں خود ہی لوٹ آئی۔ (حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اس واقعہ سے) انداسزہ کرو کہ ایک نو عمر اور کھیل تماشہ سے دلچسپی رکھنے والی لڑکی کا کیا مقام تھا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
ہ واقعہ بھی بیویوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی حسن معاشرت اور ان کی دل جوئی اور دلداری کی انتہائی مثال ہے، اور اس میں امت کے لئے بڑا سبق ہے۔ عید میں لہو و لعب کی بھی گنجائش البتہ اس سلسلہ میں یہ بات خاص طور سے قابل لحاظ ہے کہ یہ عید کا دن تھا۔ جیسا کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی ایک روایت میں اس کی تصریح ہے۔ (1) اور عید میں لہو و لعب کی بھی ایک حد تک گنجائش رکھی ہے، کیوں کہ عوامی جشن و نشاط کا یہ بھی ایک فطری تقاضا ہے۔ صحیحین اور دورسری کتب حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے یہ واقعہ مروی ہے کہ ایک دفعہ عید کے دن رسول اللہ ﷺ کپڑا اوڑھے آرام فرما رہے گھے، دو بچیاں آئیں اور دَف بجا بجا کر جنگ بُعاث سے متعلق کچھ اشعار گانے لگیں، اتنے میں حضرت ابو بکرؓ آ گئے۔ انہوں نے ان بچیوں کو ڈانٹ کر بھگا دینا چاہا، آنحضرتﷺ نے منہ کھول کر فرمایا: "دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ، فَإِنَّهَا أَيَّامُ عِيدٍ" (ابو بکر! ان بچیوں کو چھوڑ دو، یعنی جو کر رہی ہیں کرنے دو، یہ عید کا دن ہے) مطلب یہی تھا کہ عید میں اس طرح کے لہو و لعب کی ایک حد تک گنجائش رکھی گئی ہے۔ الغرض کھیل کو دیکھنے کا جو ذکر ہے اس کے بارے میں ایک بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ وہ عید کا دن تھا، اور عید میں اس طرح کی تفریحات کی ایک حد تک گنجائش ہے۔ یہ ایک بامقصد اور تربیتی کھیل تھا، اسی لئے خود حضور ﷺ نے اس میں دلچسپی لی علاوہ ازیں نیزہ ماری کا یہ کھیل ایک بامقصد کھیل تھا جو فن جنگ کی تعلیم و تربیت کا بھی ایک ذریعہ تھا، غالبا اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے خود بھی اس سے دلچسپی لی۔ صحیحین کی اسی حدیث کی بعض روایات میں ہے کہ آنحضرتﷺ ان کھلاڑیوں کو "دُونَكُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ" کہہ کر ایک طرح کی داد بھی دیتے اور ان کی ہمت افزائی فرماتے تھے۔ (1) اور اسی واقعہ سے متعلق صحیحین کی بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ان کھلاڑیوں حبشیوں کو (جو مسجد میں اپنا کھیل دکھا رہے تھے) مسجد سے بھگا دینا چاہا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا: "دَعْهُمْ" (یعنی انہیں کھیلنے دو) اور ان کھلاڑیوں سے فرمایا "أَمْنًا بَنِي أَرْفِدَةَ" (یعنی تم بےخوف اور مطمئن ہو کر کھیلو)۔ پردہ کا سوال اس حدیث کے سلسلہ میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ یہ حبشی لوگ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے لئے یقینا غیر محرم اور اجنبی تھے، پھر انہوں نے ان کا کھیل کیوں دیکھا اور رسول اللہ ﷺ نے کیوں دکھایا؟ بعض شارحین نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ یہ واقعہ اس ابتدائی زمانہ کا ہے جب پردہ کا حکم نازل ہی نہیں ہوا تھا۔ لیکن روایات کی روشنی میں یہ بات صحیح ثابت نہیں ہوتی۔ فتح الباری میں حافظ ابن حجر نے ابن حبان کی روایت سے ذکر کیا ہے کہ یہ واقعہ ۷؁ھ کا ہے جب کہ حبشہ کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور حجاب کا حکم یقینا اس سے پہلے آ چکا تھا۔ اس کے علاوہ حضرت عائشہ ؓ کی زیر تشریح حدیث میں بھی یہ مذکور ہے کہ جس وقت وہ کھیل دیکھ رہی تھیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے اپنی چادر مبارک کا پردہ کر دیا تھا، اگر یہ واقعہ حجاب کے حکم سے پہلے کا ہوتا تو اس کی ضرورت نہ ہوتی۔ دوسری بات اس سوال کے جواب میں یہ کہی گئی ہے کہ چونکہ اس کا قطعا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ ان حبشیوں کا کھیل دیکھنے کی وجہ سے حضرت صدیقہؓ کے دل میں کوئی بُرا خیال اور وسوسہ پیدا ہو، اس لئے ان کے لئیے یہ دیکھنا جائز تھا۔ اور جب بھی کسی عورت کے لئے ایسی صورت ہو کہ وہ فتنہ اور مفسدہ سے مامون و محفوظ ہو تو اس کے لئے اجنبی کو دیکھنا ناجائز نہیں ہو گا۔ امام بخاریؒ نے صحیح بخاری کتاب النکاح میں اسی حدیث پر "باب النظر الى الحبش ونحوهم من غير ريبة" کا ترجمۃ الباب قائم کر کے اسی جواب کی طرف اشارہ کیا ہے، اور بلاشبہ یہی جواب زیادہ تشفی بخش ہے۔ واللہ اعلم۔
Top