معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1439
عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حَيْدَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «حَقُّ الْجَارِ إِنْ مَرِضَ عُدْتَهُ، وَإِنْ مَاتَ شَيَّعْتَهُ، وَإِنِ اسْتَقْرَضَكَ أَقْرَضْتَهُ، وَإِنْ أَعْوَزَ سَتَرْتَهُ، وَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ هَنَّأْتَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ مُصِيبَةٌ عَزَّيْتَهُ، وَلَا تَرْفَعْ بِنَاءَكَ فَوْقَ بِنَائِهِ فَتَسُدَّ عَلَيْهِ الرِّيحَ، وَلَا تُؤْذِهِ بِرِيحِ قِدْرِكَ إِلَّا أَنْ تَغْرِفَ لَهُ مِنْهَا» (رواه الطبرانى فى الكبير)
ہم سائیگی کے بعض متعین حقوق
معاویہ بن حیدہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: پڑوسی کے حقوق تم پر یہ ہیں کہ اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت اور خبر گیری کرو اور اگر انتقال کر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ (اور تدفین کے کاموں میں ہاتھ بٹاؤ) اور وہ (اپنی ضرورت کے لئے) قرض مانگے تو بشرط استطاعت) اس کو قرض دو اور اگر وہ کوئی برا کام کر بیٹھے تو پردہ پوشی کرو اور اگر اسے کوئی نعمت ملے تو اس کو مبارک باد دو اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو، اور اپنی عمارت اس کی عمارت سے اس طرح بلند نہ کرو کہ اس کے گھر کی ہوا بند ہو جائے اور (جب تمہارے گھر کوئی اچھا کھانا پکے تو اس کی کوشش کرو کہ) تمہاری ہانڈی کی مہک اس کے لئے (اور اس کے بچوں کے لئے) باعث ایذاء نہ ہو (یعنی اس کا اہتمام کرو کہ ہانڈی کی مہک اس کے گھر تک نہ جائے) الا یہ کہ اس میں سے تھوڑا سا کچھ اس کے گھر بھی بھیج دو (اس صورت میں کھانے کی مہک اس کے گھر تک جانے میں کوئی مضائقہ نہیں) (معجم کبیر للطبرانی)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے پڑوسیوں کے بعض متعین حقوق کی نشان دہی بھی فرمائی ہے ان سے اس باب میں شریعت کا اصولی نقطہ نظر بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ تشریح ..... اس حدیث میں ہمسایوں کے جو متعین حقوق بیان کئے گئے ہیں ان میں سے آخری دو خاص طور سے قابل غور ہیں: ایک یہ کہ اپنے گھر کی تعمیر میں اس کا لحاظ رکھو اور اس کی دیواریں اس طرح نہ اُٹھاؤ کہ پڑوسی کے گھر کی ہوا بند ہو جائے اور اس کو تکلیف پہنچے۔ اور دوسرے یہ کہ گھر میں جب کوئی اچھی مرغوب چیز پکے تو اس کو نہ بھولو کہ ہانڈی کی مہک پڑوسی کے گھر تک جائے گی، اور اس کے یا اس کے بچوں کے دل میں اس کی طلب اور طمع پیدا ہو گی جو ان کے لئے باعث ایذاء ہو گی۔ اس لئے یا تو اپنے پر لازم کر لو کہ اس کھانے میں سے کچھ تم پڑوسی کے گھر بھیجو گے یا پھر اس کا اہتمام کرو کہ ہانڈی کی مہک پڑوسی کے گھر تک نہ جائے جو ظاہر ہے کہ مشکل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی ان دو ہدایتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پڑوسیوں کے بارے مٰں کتنے نازک اور باریک پہلوؤں کی رعایت کو آپ ﷺ نے ضروری قرار دیا ہے۔ قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث ابن عدی نے "کامل " میں اور خرائطی نے "مکارم الاخلاق" میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے بھی روایت کی ہے۔ اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے: وَإِنِ اشْتَرَيْتَ فَاكِهَةً فَأَهْدِ لَهُ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَأَدْخِلْهَا سِرًّا، وَلَا يَخْرُجْ بِهَا وَلَدُكَ لِيَغِيظَ بِهِ وَلَدَهُ. (كنز العمال) اور اگر تم کوئی پھل پھلار خرید کر لاؤ، تو اس میں سے پڑوسی کے ہاتھ بھی ہدیہ بھیجو اور اگر ایسا نہ کر سکو تو اس کو چھپا کے لاؤ) کہ پڑوس والوں کو خبر نہ ہو، اور اس کی بھی احتیاط کرو کہ) تمہارا کوئی بچہ وہ پھل لے کر گھر سے باہر نہ نکلے کہ پڑوسی کے بچے کے دل میں اسے دیکھ کر جلن پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ امت کوتوفیق دے کہ وہ اپنے رسول اللہ ﷺ کی ان ہدایتوں کی قدر و قیمت کو سمجھیں اور اپنی زندگی فکا معمول بنا کر ان کی بیش بہا برکات کا دنیا ہی میں تجربہ کریں۔
Top