معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1457
عَنْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَقَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَمْ نَعْفُو عَنِ الْخَادِمِ؟ فَصَمَتَ، ثُمَّ أَعَادَ عَلَيْهِ الْكَلَامَ، فَصَمَتَ، فَلَمَّا كَانَ فِي الثَّالِثَةِ، قَالَ: «اعْفُوا عَنْهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً» (رواه ابوداؤد)
غلاموں کی غلطیوں اور قصوروں کو معاف کیا جائے
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! اپنے خادم اور غلام کی غلطیاں کس حد تک ہمیں معاف کر دینا چاہئیں۔ آپ ﷺ نے سکوت فرمایا (اور کوئی جواب نہیں دیا) اس شخص نے دوبارہ آپ ﷺ کی خدمت میں یہی عرض کیا۔ آپ ﷺ پھر خاموش رہے، اور جواب میں کچھ نہیں فرمایا۔ پھر جب تیسری دفعہ اس نے عرض کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہر روز ستر دفعہ۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
پہلی اور دوسری دفعہ جو آپ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی اختیار فرمائی اس کی وجہ غالبا یہ تھی کہ آپ ﷺ نے سوال کرنے والے صاحب کو اپنی خاموشی سے یہ تاثر دینا چاہا کہ یہ کوئی پوچھنے کی بات نہیں ہے، اپنے زیرِ دست خادم اور غلام کا قصور معاف کر دینا تو ایک نیکی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور رحمت حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے جہاں تک ہو سکے معاف ہی کیا جائے لیکن جب دو دفعہ کے بعد تیسری دفعہ بھی ان صاحب نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا:" كُلِّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً" یعنی اگر بالفرض ہر روز صبح سے شام تک ستر قصور کرے تب بھی اسے معاف ہی کر دو۔ ظاہر ہے کہ یہاں "سبعین" سے ستر کا خاص عدد مراد نہیں ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر تمہارا زیرِ دست غلام یا نوکر بار بار غلطی اور قصور کرے تو انتقام نہ لو، معاف ہی کر دو۔ اس عاجز کے نزدیک معافی کے اس حکم کا مطلب یہی ہے کہ اس کو انتقاماً سزا نہ دی جائے، لیکن اگر اصلاح و تادیب کے لئے کچھ سرزنش مناسب سمجھی جائے تو اس کا پورا حق ہے، اور اس حق کا استعمال کرنا اس ہدایت کے خلاف نہ ہو گا، بلکہ بعض اوقات اس کے حق میں یہی بہتر ہو گا۔
Top