معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1468
عَنْ أَبِي مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا ثُمَّ شَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ. (رواه البخارى ومسلم)
اسلامی برادری کے باہمی تعلقات اور برتاؤ کے بارے میں ہدایات
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق ایک مضبوط عمارت کا سا ہے، اس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھایا (کہ مسلمانوں کو اس طرح باہم وابستہ اور پیوستہ ہونا چاہئے) (صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ ﷺ (اور اسی طرح آپ سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام بھی) اللہ تعالیٰ کی طرف سے دین حق کی دعوت اور ہدایت لے کر آئے تھے جو لوگ ان کی دعوت کو قبول کر کے ان کا دین اور ان کا راستہ اختیار کر لیتے تھے وہ قدرتی طور سے ایک جماعت اور امت بنتے جاتے تھے۔ یہی دراصل "اسلامی برادری" اور "امت مسلمہ" تھی۔ جب تک رسول اللہ ﷺ اس دنیا میں رونق افروز رہے یہی برادری اور یہی امت آپ ﷺ کا دست و بازو اور دعوت و ہدایت کی مہم میں آپ ﷺ کی رفیق و مددگار تھی، اور آپ ﷺ کے بعد قیامت تک کسی کو آپ ﷺ کی نیابت میں اس مقدس مشن کی ذمہ داری سنبھالنی تھی۔ اس کے لئے جس طرح ایمان و یقین، تعلق باللہ اور اعمال و اخلاق کی پاکیزگی اور جذبہ دعوت کی ضرورت تھی، اسی طرح دلوں کے جوڑ اور شیرازہ بندی کی بھی۔ ضرورت تھی، اگر دل پھٹے ہوئے ہوں، اتحاد و اتفاق کے بجائے اختلاف و انتشار اور خود آپس میں جنگ و پیدار ہو تو ظاہر ہے کہ نیابت نبوت کی یہ ذمہ داری کسی طرح بھی ادا نہیں کی جا سکتی۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اسلامیت کو بھی ایک مقدس رشتہ قرار دیا۔ اور امت کے افراد اور مختلف طبقوں کو خاص طور سے ہدایت و تاکید فرمائی کہ وہ ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھیں، اور باہم خیرخواہ و خیر اندیش اور معاون و مدد گار بن کے رہیں۔ ہر ایک دوسرے کا لحاظ رکھے، اور اس دینی ناطہ سے ایک دوسرے پر جو حقوق ہوں ان کو ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اس تعلیم و ہدایت کی ضرورت خاص طور سے اس لئے بھی تھی کہ امت میں مختلف ملکوں، نسلوں اور مختلف طبقوں کے لوگ تھے۔ جن کے رنگ و مزاج اور جن کی زبانیں مختلف تھیں اور یہ رنگا رنگی آگے کو اور زیادہ بڑھنے والی تھی۔ اس سلسلہ کی رسول اللہ ﷺ کی اہم ہدایات مندرجہ ذیل حدیثوں میں پڑھئے: تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ جس طرح عمارت کی اینٹیں باہم مل کر مضبوط قلعہ بن جاتی ہیں اسی طرح امت مسلمہ ایک قلعہ ہے، اور ہر مسلمان اس کی ایک ایک اینٹ ہے ان میں باہم وہی تعلق اور ارتباط ہونا چاہئے جو قلعہ کی ایک اینٹ کا دوسری اینٹ سے ہوتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھایا کہ مسلمانوں کے مختلف افراد اور طبقوں کو باہم پیوستہ ہو کر اس طرح امت واحد ہ بن جانا چاہئے جس طرح اگ اگ دو ہاتھوں کی یہ انگلیاں ایک دوسرے سے پیوستہ ہو کر ایک حلقہ اور گویا ایک وجود بن گئیں۔
Top