معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1493
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا وَلاَ تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا. أَوَلاَ أَدُلُّكُمْ عَلَى شيء إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ أَفْشُوا السَّلاَمَ بَيْنَكُمْ. (رواه مسلم)
سلام کی فضیلت و اہمیت
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم جنت میں نہیں جا سکتے تاوقتیکہ پورے مومن نہ ہو جاؤ (اور تمہاری زندگی ایمان والی زندگی نہ ہو جائے) اور یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم میں باہم محبت نہ ہو جائے، کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتا دوں جس کے کرنے سے تمہارے درمیان محبت و یگانگت پیدا ہو جائے۔ (وہ یہ ہے کہ) سلام کو آپس میں خوب پھیلاؤ۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں صراحۃً معلوم ہوا کہ ایمان جس پر داخہ جنت کی بشارت ور وعدہ ہے، وہ صرف کلمہ پڑھ لینے کا اور عقیدہ کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ اتنی وسیع حقیقت ہے کہ اہل ایمان کی باہمی محبت و مودت بھی اس کی لازمی شرط ہے اور رسول اللہ ﷺ نے بڑے اہتمام کے ساتھ بتلایا ہے کہ ای دوسرے کو سلام کرنے اور اس کا جواب دینے سے یہ محبت و مودت دِلوں میں پیدا ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ لحاظ ہے کہ کسی عمل کی خاص تاثیر جب ہی ظہور میں آتی ہے جب کہ اس عمل میں روح ہو، نماز، روزہ اور حج اور ذکراللہ جیسے اعمال کا حال بھی یہی ہے۔ بالکل یہی معاملہ سلام اور مصافحہ کا بھی ہے کہ یہ اگر دل کے اخلاص اور ایمانی رشتہ کی بناء پر صحیح جذبہ سے ہوں تو پھر دلوں سے کدورت نکلنے اور محبت و مودت کا رس پیدا ہو جانے کا یہ بہترین وسیلہ ہیں۔ لیکن آج ہمارا ہر عمل بےروح ہے۔
Top