معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1511
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشْبَهَ سَمْتًا وَهَدْيًا وَدَلًّا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فَاطِمَةَ كَانَتْ «إِذَا دَخَلَتْ عَلَيْهِ قَامَ إِلَيْهَا فَأَخَذَ بِيَدِهَا، وَقَبَّلَهَا، وَأَجْلَسَهَا فِي مَجْلِسِهِ، وَكَانَ إِذَا دَخَلَ عَلَيْهَا قَامَتْ إِلَيْهِ، فَأَخَذَتْ بِيَدِهِ فَقَبَّلَتْهُ، وَأَجْلَسَتْهُ فِي مَجْلِسِهَا» (رواه ابوداؤد)
معانقہ و تقبیل اور قیام
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو شکل و صورت، سیرت و عادت اور چال ڈھال میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ زیادہ مشابہ ہو۔ صاحبزادی فاطمہ ؓ سے (یعنی ان سب چیزوں میں وہ سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ سے مشابہ تھیں) جب وہ حضور ﷺ کے پاس آتیں تو آپ ﷺ (جوشِ محبت سے) کھڑے ہو کر ان کی طرف بڑھتے۔ ان کا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لے لیتے اور (پیار سے) اس کو چومتے، اور اپنی جگہ پر ان کو بٹھاتے (اور یہی ان کا دستور تھا) جب آپ ﷺ ان کے یہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپکے لئے کھڑی ہو جاتیں۔ آپ ﷺ کا دستِ مبارک اپنے ہاتھ میں لے لیتیں، اس کو چومتیں اور اپنی جگہ پر آپ ﷺ کو بٹھاتیں۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
یہ روایات اس کی واضح دلیل ہیں کہ محبت اور اکرام کے جذبہ سے معانقہ اور تقبیل (یعنی ہاتھ یا پیشانی وغیرہ چومنا) جائز، اور خود رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں، اس لئے حضرت انسؓ کی اس حدیث کو جس میں معانقہ اور تقبیل کی ممانعت کا ذکر ہے اسی پر محمول کیا جائے گا کہ وہ حکم ان مواقع کے لئے جب سینہ سے لگانے اور چومنے میں کسی برائی یا اس کے شک و شبہ کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ حضرت عائشہ والی آخرت حدیث میں حضرت فاطمہ ؓ کی آمد پر حضور ﷺ کے کھڑے ہو جانے اور حضور ﷺ کی تشریف آوری پر حضرت فاطمہؓ کے کھڑے ہونے کا ذکر ہے۔ یہ بات اس کی دلیل ہے ہے کہ محبت اور اکرام و احترام کے جذبہ سے اپنے کسی عزیز، محبوب یا محترم بزرگ کے لئے کھڑا ہو جانا بھی درست ہے۔ لیکن بعض احادیث سے (جو آگے درج ہوں گی) یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کے تشریف لانے پر اگر صحابہ کرامؓ کبھی کھڑے ہو جاتے تو آپ ﷺ اس کو ناپسند فرماتے اور ناگواری کا اظہار فرماتے تھے، غالباً اس کی وجہ آپ ﷺ کی مزاجی خاکساری اور تواضع پسندی تھی۔ واللہ اعلم۔
Top